تاریخ اسلام

سانحہ حرہ؛ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کے شہر مدینہ کو تاراج کیا گیا

سانحہ حرہ؛ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کے شہر مدینہ کو تاراج کیا گیا

28 ذی الحجہ؛ تاریخ اسلام کے ایک سیاہ ترین سانحہ کی یاد دلاتی ہے

حادثہ حرہ؛ جس میں شہر مدینہ میں روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ کو یزیدی فوج نے گھوڑوں سے روندا۔

یہ واقعہ نہ صرف کتب تاریخ میں ایک جرم کی تلخ یاد ہے بلکہ آج ہمارے لئے دینی حکومت کے راہ اہل بیت علیہم السلام سے ہٹ جانے کے خلاف ایک تنبیہ بھی ہے۔

اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔

تاریخ طبری اور الکامل ابن اثیر سمیت تاریخی کتابوں کے مطابق سن 63 ہجری میں امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے صرف ایک سال بعد اہل مدینہ نے یزید بن معاویہ کے طرز عمل پر عدم اطمینان کا اظہار کیا اور اس کی بیعت کو توڑ دیا۔

اس احتجاج پر یزید کی طرف سے سخت رد عمل سامنے آیا اور مسلم بن عقبہ کی سرکردگی میں ایک بڑی فوج کو لوگوں کو کچلنے کے لئے مدینہ بھیجا گیا۔

خونی محاصرے کے بعد فوج یزید کے سپہ سالار نے یزید پلید کے حکم پر اہل مدینہ کی جان و مال اور آبرو کو 3 دن تک اپنے سپاہیوں کے لئے جائز قرار دیا۔

اس حادثہ سے بے انتہا تباہی ہوئی، ہزاروں لوگ مارے گئے، مسجد نبوی کو خون سے رنگ دیا گیا اور بہت سی خواتین کی عصمت دری کی گئی۔

یہ جرم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کی تعلیمات سے دور ایک منحرف حکومت سے ہی ممکن تھا۔

انصاف پسند مورخین اس جرم کو ایک منحرف سلسلہ سمجھتے ہیں جو سقیفہ سے شروع ہوا اور کربلا اور مدینہ میں اپنے عروج پر پہنچا۔

حادثہ حرہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ خلافت اموی اسلام اور اہل بیت کی حرمت کی حفاظت کرنے میں ناکام رہی۔

مرجع عالی قدر آیۃ اللہ العظمیٰ سید صادق حسینی شیرازی دام ظلہ نے اس سلسلہ میں فرمایا: اسلامی تاریخ کے مشکل ترین دور میں امام سجاد علیہ السلام نے صبر آزما اور تعلیم و تربیت کے ذریعہ نسلوں کے دلوں میں بیداری اور ایمان کے بیج بوئے۔ ایک ایسا راستہ جس نے واضح طور پر ظاہر کیا کہ ظلم سے جنگ صرف تلوار سے متعلق نہیں ہے۔

آج سانحہ حرہ ہمیں عدل، حکومت اور دین کے سلسلہ میں نئے سرے سے غور و فکر کرنے کی دعوت دیتا ہے۔

اگر دین کے نام پر ظلم دہرایا گیا تو کیا ہم خاموش رہیں گے؟

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button