یورپ

سوئیڈن: "غیرت کے نام پر ثقافت” کا الزام لگنے پر شہریت سے محرومی کی تجویز، مسلم برادری میں شدید تشویش

سوئیڈن: "غیرت کے نام پر ثقافت” کا الزام لگنے پر شہریت سے محرومی کی تجویز، مسلم برادری میں شدید تشویش

سوئیڈن کی حکومت کی جانب سے پیش کیا گیا ایک نیا مجوزہ قانون ملک میں مسلمانوں اور مشرقی پس منظر رکھنے والی برادریوں میں شدید بحث و اضطراب کا باعث بن گیا ہے۔ اس تجویز کے مطابق، ان افراد کو سوئیڈن کی شہریت نہیں دی جائے گی جو اپنے گھرانوں میں "غیرت کی ثقافت” نافذ کرتے ہیں۔

اس اصطلاح کو ایک مبہم اور وسیع مفہوم کا حامل سمجھا جا رہا ہے، جسے خاص طور پر اسلامی اور روایتی خاندانی اقدار رکھنے والوں کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

مجوزہ قانون کے مطابق، اگر کوئی شخص اپنی بیٹیوں یا خواتین خاندان کے افراد پر حجاب پہننے پر زور دیتا ہے، لڑکیوں کی سماجی سرگرمیوں میں شرکت پر اعتراض کرتا ہے، یا گھریلو سطح پر ایسے فیصلے کرتا ہے جنہیں "آزادی پر قدغن” سمجھا جائے، تو اُسے شہریت دینے سے انکار کیا جا سکتا ہے۔
اس فیصلے کی بنیاد پڑوسیوں، اساتذہ، سوشل سروسز اور ممکنہ طور پر پولیس کی رپورٹس پر رکھی جائے گی۔

اگرچہ حکومت اس اقدام کو "برابری کے فروغ” کے طور پر پیش کر رہی ہے، لیکن انسانی حقوق کے کارکنان اور کئی حلقے اس تجویز کو مذہبی و ثقافتی آزادیوں پر حملہ اور نجی زندگی میں ریاستی مداخلت کی خطرناک مثال قرار دے رہے ہیں۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ اس تجویز سے پوری مسلم کمیونٹی کو بدنام کرنے، ان کی ثقافتی شناخت کو مشکوک بنانے اور مذہبی روایات کو "سیکیورٹی خطرہ” ظاہر کرنے کا دروازہ کھل سکتا ہے۔

سوئیڈن کے وزیرِاعظم اولف کریسترشون کے حالیہ بیان نے اس خدشے کو مزید بڑھا دیا ہے، جس میں انہوں نے کہا:
"جو مرد اپنی بیٹیوں کو کنٹرول کرتے ہیں یا اپنے خاندان کو باقی معاشرے سے الگ رکھتے ہیں، انہیں شہریت نہیں دی جائے گی۔”

تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ جب سیاسی رہنما جمہوریت اور مساوات کے نام پر اقدار کا تحفظ کرنے کی بات کرتے ہیں، تو انہی اصولوں کو امتیازی اور متعصبانہ قانون سازی کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
اس سے شہریت کا مطلب قانونی معاہدہ نہیں، بلکہ ایک ثقافتی وفاداری کا امتحان بن جائے گا — جس میں مخصوص روایات رکھنے والوں کے لیے کوئی جگہ باقی نہیں بچے گی۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button