الہ آباد ہائی کورٹ کا شیعہ وقف بورڈ پر جرمانہ: مقدسات کے تحفظ کی کوششوں کو قانونی دھچکہ
الہ آباد ہائی کورٹ کا شیعہ وقف بورڈ پر جرمانہ: مقدسات کے تحفظ کی کوششوں کو قانونی دھچکہ
الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بینچ نے اتر پردیش کے مرکزی شیعہ وقف بورڈ پر 15,000 روپے کا جرمانہ عائد کیا ہے، الزام یہ ہے کہ ایک تاریخی مذہبی جائیداد سے متعلق نظرثانی کی درخواست میں "معلومات چھپائی گئی تھیں”۔ یہ جائیداد ایک امام باڑے اور ایک وقف شدہ رہائش گاہ پر مشتمل ہے۔
یہ فیصلہ، کارکنوں اور مبصرین کے مطابق، بھارت میں شیعہ برادری کے خلاف ادارہ جاتی امتیاز کے بڑھتے ہوئے رجحان کا حصہ ہے۔ یہ ایک ایسے سلسلے میں آتا ہے جس میں وقف املاک کی قانونی حیثیت کو چیلنج کیا جا رہا ہے اور شیعہ برادری کی مذہبی مقدسات کے تحفظ میں وقف بورڈ کے کردار کو محدود کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔
اس کیس کی بنیاد 1934 میں نواب محمد حسین خان کے جاری کردہ ایک وقف نامے پر ہے، جس میں 17 دکانیں، ایک امام باڑہ، اور ایک خاندانی رہائش گاہ شامل تھی۔ ان کی وفات کے بعد، 1952 میں یہ املاک قانونی تنازع کا شکار ہوئیں، جو ایک حساس سیاسی دور تھا۔ اس دوران ایک فیصلہ آیا جس میں وقف نامے کو کالعدم قرار دے دیا گیا، لیکن امام باڑے اور رہائش گاہ کا مستقبل واضح نہیں کیا گیا۔
2015 میں، شیعہ وقف بورڈ نے ان املاک پر نئے متولی مقرر کیے تاکہ ان کا تحفظ کیا جا سکے، تاہم اس اقدام نے متعدد قانونی چارہ جوئی کو جنم دیا۔ مقامی عدالتوں سے متضاد فیصلے آئے، جن میں بعض کو بورڈ کی قانونی حیثیت پر براہ راست حملہ تصور کیا گیا۔
اگرچہ بورڈ نے ان فیصلوں پر نظرثانی کے لیے درخواست دائر کی، مگر عدالتِ عالیہ نے اس پر "حقائق چھپانے” کا الزام عائد کیا اور معاملے کے پیچیدہ تاریخی و فرقہ وارانہ پس منظر کو نظرانداز کر دیا۔ مبصرین کے نزدیک یہ فیصلہ شیعہ برادری کی اپنے مذہبی ورثے کے تحفظ کی کوششوں کو ایک اور دھچکہ ہے، کیونکہ قانونی ماحول متاثرہ فریق کو ہی اپنی مقدسات کے دفاع کا بوجھ دیتا ہے۔
قانونی ماہرین نے اس فیصلے کو ایک ادارہ جاتی اور قانونی پسپائی قرار دیا ہے جو اُن مذہبی برادریوں پر مزید دباؤ کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے جو اپنی وقف املاک کو تحلیل اور ضیاع سے بچانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ انہوں نے ایک ایسے عدالتی نظام کا مطالبہ کیا ہے جو مذہبی تنوع کا احترام کرے اور بھارت میں مختلف برادریوں کے حقوق کو مساوی تحفظ فراہم کرے۔