سپریم کورٹ نے جمعرات (۱۲؍ دسمبر) کو ۲۰۲۳ء میں مظفر نگر کے طالب علم کو تھپڑ مارنے کے واقعہ سے متعلق کارکن تشار گاندھی کی طرف سے دائر کی گئی مفاد عامہ کی عرضداشت پر طلبہ میں مساوات، سیکولرازم اور بھائی چارے جیسی آئینی اقدار کو فروغ دینے کی اہمیت پر زور دیا۔
عدالت نے کہا کہ ریاست اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کر سکتی کہ معیاری تعلیم فراہم کرنے کا حتمی مقصد یہ یقینی بنانا ہے کہ بچے صحیح معنوں میں اچھے شہری بنیں جو آئین ہند کی اخلاقیات اور اقدار سے واقف ہوں۔ ریاست کو اس پہلو پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، خاص طور پر جب ہم اپنے آئین کے وجود کے ۷۵؍ سال مکمل کر چکے ہیں۔ ہم ریاست کو ایک ماہ کا وقت دیتے ہیں کہ وہ مناسب فیصلے کرے اور اسے حلف نامہ کی شکل میں ۶؍ ہفتوں میں ریکارڈ پر رکھے۔
سماعت کے دوران جسٹس اوکا نے کہا کہ یہ حکم ایسے واقعات سے نمٹنےکیلئے اہم ہے۔ لیکن نچلی سطح پر ایسا ہوتا ہے کہ اساتذہ طلبہ کو بتاتے ہیں کہ یہ شخص کسی خاص برادری یا مذہب سے تعلق رکھتا ہے، اس لئے اس پر حملہ کیا جانا چاہئے۔ ستمبر ۲۰۲۳ءکے حکم میں عدالت نے مشاہدہ کیا تھا کہ جب آر ٹی ای ایکٹ کا مقصد معیاری تعلیم فراہم کرنا ہے، جب تک کہ طلبہ میں آئینی اقدار، خاص طور پر مساوات، سیکولرازم کی بنیادی اقدار کی اہمیت کو بیدار کرنے کی کوشش نہ کی جائے، اگر کسی اسکول میں کسی طالب علم کو صرف اس بنیاد پر سزا دی جائے کہ وہ کسی خاص برادری سے تعلق رکھتا ہے تویہ کوئی معیاری تعلیم کی مثال نہیں ہو سکتی۔
عدالت نے ریاست کی طرف سے حق تعلیم(آر ٹی ای) ایکٹ ۲۰۰۹ء کے نفاذ، خاص طور پر سیکشن۱۲؍ اور۱۷؍، اور اتر پردیش آر ٹی ای رولز، ۲۰۱۱ء کے قاعدہ۵؍ کی تعمیل پر تشویش کا اظہار کیا۔ بنچ نے نوٹ کیا کہ امتیازی سلوک، جسمانی سزا اور بیداری کے طریقہ کار پر ریاستی حکومت سے کارروائی کی ضرورت ہے۔