آسام، ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاؤن – 92 گرفتار، اظہارِ رائے پر پابندی بڑھتی جا رہی ہے
آسام، ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاؤن – 92 گرفتار، اظہارِ رائے پر پابندی بڑھتی جا رہی ہے
جنوبی ایشیا میں مسلمانوں کے خلاف جاری منظم دباؤ کی ایک نئی مثال آسام، ہندوستان میں سامنے آئی ہے۔ ریاستی حکام نے مزید دو مسلمان نوجوانوں کو گرفتار کر لیا ہے، جس کے بعد حالیہ دنوں میں گرفتار افراد کی تعداد 92 ہو گئی ہے۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے سوشل میڈیا پر "ملک مخالف مواد” شائع کیا۔
نئے گرفتار ہونے والوں میں "سابق الاسلام” اور "دُلال بورا” شامل ہیں، جو آسام کی مسلم برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس مہم کو غیرقانونی اور متعصبانہ قرار دیا ہے، جس میں مسلمانوں کو "ہندوتوا کے دشمن” جیسے الفاظ میں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ میڈیا میں اس ریاستی جبر کو "قومی سلامتی” کی آڑ میں جائز قرار دیا جا رہا ہے۔
یہ کارروائیاں صرف اُن افراد تک محدود نہیں جو باہالگام حملے پر رائے دے رہے ہیں، بلکہ اُن تمام مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جو مشرق وسطیٰ کے مظلوموں سے اظہارِ ہمدردی کرتے ہیں یا حکومت کی پالیسیوں سے اختلاف رکھتے ہیں۔ یہ پالیسی ایک تسلسل کے ساتھ مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی حکمت عملی کا حصہ بن چکی ہے۔
قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ مسلم رکنِ اسمبلی "امین الاسلام” کو بھی صرف اس وجہ سے گرفتار کر لیا گیا کہ اُس نے باہالگام حملے کے تناظر پر بات کی تھی۔ بعد میں اُسے دوبارہ قانونِ قومی سلامتی کے تحت حراست میں لے لیا گیا، جو ہندوستان میں آئینی آزادیوں کے لیے ایک خطرناک مثال بن گئی ہے۔
عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ آسام میں ہونے والی یہ کارروائیاں وقتی نہیں، بلکہ ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف بڑھتے ہوئے ریاستی جبر کا واضح اشارہ ہیں، جہاں اُنہیں مستقل طور پر سیاسی اور نظریاتی محاذ آرائی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔