کئی ممالک جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدیوں کے بحران میں مبتلا
کئی ممالک جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدیوں کے بحران میں مبتلا
بہت سے ممالک کی جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدی بھرے ہیں جنہیں طبی سہولیات، صاف پانی اور صحت و صفائی کے انتظام جیسے بنیادی حقوق حاصل نہیں۔ اقوام متحدہ نے تمام حکومتوں پر زور دیا ہے کہ وہ قیدیوں کے حالات میں بہتری لانے کے لیے نظام انصاف میں ضروری اصلاحات کو یقینی بنائیں۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے آج اس مسئلے پر ایک اجلاس کا انعقاد کیا جس میں معاشروں کو جرائم سے بہتر تحفظ فراہم کرنے کے لیے مجرموں کو قید کے بعد زندگی کی بحالی میں مدد دینے کے طریقوں پر بات چیت کی گئی۔
ایک دہائی قبل اسمبلی نے ‘نیلسن منڈیلا ضوابط’ کی منظوری دی تھی جو 122 رہنما ہدایات کا مجموعہ ہے۔ اس میں قیدیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کے حوالے سے کم از کم ضابطے متعین کیے گئے ہیں۔ یہ اقدام دنیا کے بااثرترین سابق قیدی اور جنوبی افریقہ میں شہری حقوق کے لیے کام کرنے والی نمایاں ترین شخصیت اور ملک کے سابق صدر نیلسن منڈیلا کی زندگی اور جدوجہد سے تحریک پا کر شروع کیا گیا۔
ان ضوابط کا مقصد قیدیوں کے تحفظ، سلامتی اور انسانی وقار کو یقینی بنانا اور قید خانوں کے عملے کے لیے واضح قوانین اور اصول پیش کرنا ہے۔
حقوق سے محرومی
اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسداد منشیات و جرائم (یو این او ڈی سی) کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر غادہ ولی نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت دنیا بھر میں قیدیوں کی تعداد ایک کروڑ 15 لاکھ ہے۔
جب جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدی رکھے جاتے ہیں تو وہ اپنے بہت سے حقوق سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ایسے حالات میں ناصرف انہیں اور جیل کے عملے کو خطرات لاحق ہوتے ہیں بلکہ سزا کاٹنے کے بعد ان قیدیوں کو معاشرے کا کارآمد شہری بنانے کی کوششوں کو بھی نقصان ہوتا ہے اور اس سے پورے سماج پر منفی اثرات پڑتے ہیں۔
خواتین قیدیوں کے لیے خطرات
گزشتہ 20 برس کے دوران دنیا بھر کی جیلوں میں خواتین قیدیوں کی تعداد 57 فیصد بڑھ گئی ہے جو مردوں کے مقابلے میں تقریباً تین گنا بڑی شرح ہے۔
غادہ ولی نے کہا کہ بیشتر ممالک میں جیلوں کا نظام ان قیدیوں کی مخصوص ضروریات کو پورا نہیں کرتا۔ یہ نہ تو محفوظ صورتحال ہے اور نہ ہی یہ انسانی حالات کہے جا سکتے ہیں۔
حراستی مراکز میں خواتین کو جنسی تشدد، تولیدی صحت کی سہولیات تک محدود رسائی اور اپنے بچوں سے علیحدگی جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔