اسلامی دنیاتاریخ اسلاممقالات و مضامین

27 رجب الاصب، یوم بعثت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ

شہراللہ رجب الاصب کی 27 تاریخ کو حرم الہی مکہ مکرمہ کے غار حرا میں سید الملائکہ جبرئیل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ  کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کے سلسلہ میں حکم خدا پہنچایا۔

 ‘‘اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ  خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ  اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ  الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ  عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ’’  (سورہ علق ، آیت ۱ تا ۵)

‘‘اس خدا کا نام لے کر پڑھو جس نے پیدا کیا ہے، اس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا ہے، پڑھو اور تمہارا پروردگار بڑا کریم ہے، جس نے قلم کے ذریعے تعلیم دی ہے، اور انسان کو وہ سب کچھ بتا دیا ہے جو اسے نہیں معلوم تھا۔’’ حضورؐ نے ان آیات کی تلاوت کی تو جبرئیل امین نے آپؑ  کو مژدہ بعثت دیا کہ اب آپؑ کو اللہ نے رسالت کے لئے مبعوث کر دیا ہے۔

اللہ نے آسمان کے دروازوں کو کھول دیا اور ملائکہ گروہ در گروہ  آتے اور بعد درود و سلام بعثت کی مبارکباد  پیش کر کے رخصت ہو جاتے۔ آخر جبرئیل امین ؑ بھی اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے بعد چلے گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  بھی بیت الشرف جانے کے لئے غار سے نکلے ، دل میں خیال آیا کہ کیا میں اس عظیم ذمہ داری کی ادائیگی میں کامیاب ہو جاوں گا، کہیں قریش میری جانب جنون کی نسبت  نہ دیں اور کار رسالت کی ادائیگی میں رکاوٹ نہ بنیں ، اسی وقت وحی نازل ہوئی  ‘‘قریش کی تکذیب سے پریشان نہ ہوں ، عنقریب آپ کے دین میں وسعت آئے گی ، لوائے حمد آپ کے ہاتھ میں ہے آپ کے بعد علی علیہ السلام  کے ہاتھ میں ہو گا،  اللہ نے علی علیہ السلام کو آپ کے بعد تمام انبیاء و اولیاء پر فضیلت دی ہے۔ 

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ کے دل میں خیال آیا کہ کیا  اس ‘‘علی’’ سے مراد میرا بھائی ‘‘علیؑ’’ ہی ہے تو  دوبارہ وحی آئی ‘‘ ہاں ! وہی علی کہ روز قیامت جس کے پرچم کے زیر سایہ تمام انبیاء، اولیاء، صدیقین اور شہداء نعمتوں والی جنت میں داخل ہوں گے۔’’ اس کے بعد جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وہاں سے گھر کی جانب روانہ ہوئے تو جس پہاڑ یا پتھر کے پاس سے گزرتے وہاں سے آواز آتی  ‘‘السَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُولَ اللّهِ السَّلَامُ عَلَیْکَ یَا حَبِیبَ اللّهِ السَّلَامُ عَلَیْکَ یَا نَبیَّ اللّه’’(ّبحار الانوار، جلد۱۷، صفحہ ۳۰۹)

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے ‘‘بعثت رسولؐ’’ کے سلسلہ میں سوال ہوا تو آپ نے فرمایا: میں نے یہی سوال اپنے والد ماجد امام جعفر صادق علیہ السلام سے کیا تھا تو انہوں نے فرمایا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ بعثت کے بعد اپنے گھر واپس آئے تو جناب خدیجہ سلام اللہ علیہا نے دیکھا کہ آپ کا وجود نور سے منور ہے تو انہوں نے اس تبدیلی کے سلسلہ میں دریافت کیا تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا: ائے خدیجہ! میں مبعوث بہ رسالت ہو گیا ہوں۔ جناب خدیجہ سلام اللہ علیہا نے فرمایا: میں برسوں سے اس دن کی منتظر تھی اور وہ آپ پر ایمان لائیں۔

اس روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے جناب خدیجہ سلام اللہ علیہا اور امیرالمومنین امام علی علیہ السلام سے فرمایا: جان لو کہ اسلام کی کچھ شرطیں  ہیں، آپ نے ایک ایک شرط بیان کی جسے ان دونوں نے قبول کیا۔  اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا: ‘‘تمہارا ایمان قبول نہیں ہو گا جب تک کہ تم میری زندگی میں ہی میرے بعد امام اور میرے جانشین کو نہ پہچان لو اور اسے مان نہ لو ۔ ’’ ان دونوں نے اطاعت و فرمانبرداری کا اظہار کیا تو آپ نے فرمایا: ائے خدیجہؑ! میرے بعد امام، میرے جانشین اور میرے وصی ہونے کے  عنوان سے علی علیہ السلام کی بیعت کرو۔’’جناب خدیجہ سلام اللہ علیہا پہلی خاتون ہیں جنہوں نے مولا علی علیہ السلام کی بیعت کی۔  (بحارالانوار، جلد ۱۸، صفحہ ۲۳۲)

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button