شام

سوريا میں علوی خواتین کا اغوا: خاندانوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی تشویش

سوريا میں علوی خواتین کا اغوا: خاندانوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی تشویش

سوریہ میں جاری بدامنی اور عدم استحکام کے دوران ایک افسوسناک واقعہ سامنے آیا ہے۔ رواں سال کے آغاز سے اب تک 33 علوی خواتین اور لڑکیاں لاپتہ یا اغوا ہو چکی ہیں۔ ان کی عمریں 16 سے 39 سال کے درمیان ہیں۔ کچھ خاندانوں کو فدیے کی رقم کا مطالبہ کیا گیا ہے، جبکہ کچھ کو اپنی بیٹیوں کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ملی۔

عبیر سلیمان نامی 29 سالہ لڑکی 21 مئی کو صافیتا شہر سے لاپتہ ہو گئی۔ اغواکاروں نے اس کے گھر والوں کو دھمکی دی کہ اگر وہ 15 ہزار ڈالر نہیں دیتے تو وہ عبیر کو مار دیں گے یا انسانی اسمگلنگ کے گروہوں کو بیچ دیں گے۔ عبیر کے گھر والوں نے پیسے ادا کر دیے، مگر اس کے بعد اغواکاروں سے رابطہ ختم ہو گیا اور عبیر کا کچھ پتہ نہ چل سکا۔

یہ واقعات ان علاقوں میں پیش آ رہے ہیں جہاں علوی برادری کی اکثریت ہے، خاص طور پر مارچ کے بعد جب سے حکومت تبدیل ہوئی ہے۔ نئی حکومت سے وابستہ مسلح گروپوں نے ان علاقوں میں چھاپے مارے اور کئی علوی خاندانوں کو وہاں سے نکال دیا۔

اقوام متحدہ کی ایک کمیٹی نے اس سال کے موسم بہار میں کم از کم 6 خواتین کے اغوا کی تصدیق کی ہے، اور مزید کیسز کی تفتیش جاری ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ علوی خواتین کو نشانہ بنانا اس برادری کو خوفزدہ کرنے اور علاقے میں فرقہ وارانہ کشیدگی بڑھانے کی کوشش ہو سکتی ہے۔

دوسری جانب، شامی حکومت اور سکیورٹی ادارے ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کئی خواتین کے لاپتہ ہونے کی وجوہات گھریلو مسائل یا خود سے گھر چھوڑ کر جانا بھی ہو سکتی ہے۔ حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ امن و امان قائم رکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔

کچھ علوی خواتین جو واپس آ چکی ہیں، وہ اپنے اغوا یا لاپتہ ہونے کی تفصیلات ظاہر کرنے سے گریزاں ہیں کیونکہ وہ سیکیورٹی خطرات سے ڈرتی ہیں۔

خاندانوں کو اب بھی امید ہے کہ ان کی بیٹیاں جلد واپس آ جائیں گی، لیکن سیکیورٹی کی خراب صورتحال اور عدم استحکام ان کی پریشانیوں میں اضافہ کر رہا ہے۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button