شام

دی گارڈین نے شام میں مار الیاس چرچ کے قتل عام کی نئی تفصیلات شائع کر دیں

دی گارڈین نے شام میں مار الیاس چرچ کے قتل عام کی نئی تفصیلات شائع کر دیں

برطانوی اخبار *دی گارڈین* نے ایک دل دہلا دینے والے واقعے کی نئی تفصیلات شائع کی ہیں، جسے اخبار نے "دمشق میں برسوں بعد ہونے والا سب سے ہولناک حملہ” قرار دیا ہے۔ یہ حملہ ایک خودکش بمبار نے مار الیاس چرچ (روم آرتھوڈوکس) پر کیا، جس کے نتیجے میں کم از کم 22 افراد جاں بحق اور 63 زخمی ہوئے۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب چرچ میں شام کی عبادت ہو رہی تھی، جس میں 150 سے زائد لوگ شریک تھے۔

شامی وزارت داخلہ کے ایک ذرائع کے مطابق، حملہ آور کا تعلق شدت پسند تنظیم داعش سے تھا، جو عبادت کے دوران چرچ میں داخل ہوا، پہلے اندھا دھند فائرنگ کی، اور پھر خود کو مرکزی ہال میں دھماکے سے اڑا لیا۔ اس دھماکے سے چرچ میں خوفناک تباہی ہوئی، اور خون ہر طرف بکھر گیا۔

عینی شاہدین نے بتایا کہ حملہ آور دو تھے۔ ایک نے خود کو دھماکے سے اڑایا، جبکہ دوسرا صرف فائرنگ کرتا رہا اور فرار ہو گیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ حملہ اچھی طرح پلان کیا گیا تھا، خاص طور پر ایسے وقت میں جب دمشق میں نئی سخت گیر اسلامی حکومت کے آنے کے بعد سیکیورٹی سخت کی جا چکی تھی۔

ایک زندہ بچنے والے نے بتایا:
"ہم عبادت کر رہے تھے، اور اچانک گولیاں چلنے لگیں۔ میں نے اپنی آنکھوں کے سامنے بیس سے زیادہ لاشیں دیکھیں۔ چاروں طرف چیخ و پکار اور بارود کی بو پھیلی ہوئی تھی۔”

سوشل میڈیا پر چرچ کے اندر کی ویڈیوز وائرل ہوئیں، جن میں خون آلود لاشیں، تباہ شدہ بینچ، اور روتے ہوئے پادری اور امدادی کارکن نظر آ رہے ہیں۔ واقعے کے بعد فوراً سیکیورٹی فورسز نے پورے علاقے کو گھیرے میں لے لیا، اور لوگوں میں شدید خوف پھیل گیا۔

یہ حملہ شام کے سابق صدر بشار الاسد کے دسمبر میں اقتدار سے ہٹنے کے بعد پہلا بڑا حملہ تھا۔ حکومت اب ایک نئی سخت گیر مذہبی قیادت کے ہاتھ میں ہے، جو کچھ سابقہ اپوزیشن جنگجوؤں کے ساتھ مل کر حکومت کر رہی ہے۔ داعش شاید اسی سیاسی تبدیلی اور سیکیورٹی کے خلا کا فائدہ اٹھا کر دوبارہ منظم ہونے کی کوشش کر رہی ہے، خاص طور پر ان ہتھیاروں سے جو پرانی حکومت نے چھوڑ دیے۔

اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی "گیر پیڈرسن” نے اس حملے کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور اسے "وحشیانہ جرم” قرار دیا، اور مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ دمشق کی وزارت دفاع نے بھی واقعے کی تحقیقات کا اعلان کیا اور عبادت گاہوں کی حفاظت کا وعدہ کیا ہے۔

*دی گارڈین* نے آخر میں لکھا کہ اگرچہ نئی حکومت زیادہ تر علاقوں پر قابض ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ زمین پر اب بھی کئی شدت پسند گروپ موجود ہیں، جن میں کچھ داعش جیسے نظریات کے حامل ہیں۔ حکومت ان گروپوں کو ایک فوج کے تحت لانے کی کوشش کر رہی ہے، لیکن موجودہ حالات میں یہ کام کافی مشکل نظر آتا ہے۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button