خبریںہندوستان

بھارتی مسلمان تعلیمی میدان میں مشکلات کے باوجود نمایاں ترقی کر رہے ہیں

سماجی اور معاشی چیلنجز کے باوجود، بھارت کے مسلمانوں نے اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں اہم پیشرفت کی ہے اور جدید تعلیمی ادارے قائم کر کے اس تاثر کو چیلنج کیا ہے کہ وہ تعلیم میں پیچھے ہیں۔

ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، بھارتی مسلمانوں نے ملک بھر میں 31 جدید یونیورسٹیاں اور 1,239 اقلیتی درجے والے کالج قائم کیے ہیں، جو تناسب کے لحاظ سے دیگر اقلیتوں سے کہیں زیادہ ہیں (مسلم مرر کے مطابق)۔

یہ کامیابی اس لیے بھی حیران کن ہے کیونکہ 2023 کی ہندستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، مسلمانوں کی فی کس آمدنی اور اثاثے ملک کی بڑی مذہبی برادریوں میں سب سے کم ہیں۔ اس کے باوجود، مسلمانوں کی تعلیم سے وابستگی مضبوط ہے۔ اگرچہ دینی مدارس پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے، لیکن یہ مسلم تعلیمی نظام کا محض ایک چھوٹا سا حصہ ہیں۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ، اور عظیم پریم جی یونیورسٹی جیسے ادارے اس بات کی مثال ہیں کہ مسلمان سائنس، ٹیکنالوجی اور پیشہ ورانہ تربیت میں بھی سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، صرف 2.99 فیصد مسلم طلبہ مدارس میں تعلیم حاصل کرتے ہیں، اور وہاں بھی ریاضی، سائنس اور انگریزی جیسے مضامین پڑھائے جاتے ہیں (فنانشل ایکسپریس، 11 مارچ 2024)۔

رپورٹ میں زور دیا گیا ہے کہ تنقید کے بجائے مثبت طریقے اپنائے جائیں۔ صرف نئے ادارے بنانے کے بجائے، داخلے بڑھانے، بچوں کے اسکول چھوڑنے کی شرح کم کرنے، اور "رائٹ ٹو ایجوکیشن” جیسے سرکاری منصوبوں سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔

مسلم مرر کے مطابق، مسلمانوں کی تعلیمی کوششیں ان کے معاشی حالات کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں، جو قابلِ تعریف ہیں۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ سب مل کر تعلیم کو عام کرنے اور ترقی کے اس سفر کو جاری رکھنے میں اپنا کردار ادا کریں۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button