ایران

ایران اور اسرائیل کے درمیان خطرناک جھڑپ: نطنز سے تل ابیب تک تباہ کن حملے

ایران اور اسرائیل کے درمیان خطرناک جھڑپ: نطنز سے تل ابیب تک تباہ کن حملے

جمعہ 13 جون کو اسرائیل نے ایران کے خلاف بڑے پیمانے پر فضائی اور میزائل حملے کیے جن میں ایرانی فوج کے کئی اہم عہدیدار اور ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔ ایران نے بھی فوراً جواب دیتے ہوئے اسرائیل پر میزائل اور ڈرون حملے کیے، جس سے دونوں ممالک کے درمیان براہِ راست جنگ کا نیا مرحلہ شروع ہو گیا۔

اس واقعے پر ہمارے ساتھی کی ایک تفصیلی رپورٹ ملاحظہ کریں:

جمعے کی صبح اسرائیلی فوج نے ایک بڑا فوجی آپریشن شروع کیا۔ اس کا ہدف نطنز اور فردو میں موجود ایران کی ایٹمی تنصیبات، پاسدارانِ انقلاب کے کمانڈ سینٹر اور ایران کے مغربی و مرکزی علاقوں میں ریڈار سسٹمز تھے۔

اسرائیلی اور مغربی میڈیا کے مطابق اس حملے میں جدید F-35 جنگی طیارے، خودکش ڈرونز اور نشانہ لگانے والے میزائل استعمال کیے گئے۔

رپورٹس کے مطابق ان حملوں میں ایران کے کم از کم 12 سینیئر فوجی کمانڈر جاں بحق ہوئے، جن میں سرلشکر محمد باقری (چیف آف اسٹاف)، حسین سلامی (سپاہ پاسداران کے سربراہ)، غلامعلی رشید (کمانڈر قرارگاه خاتم‌الانبیاء)، اور امیرعلی حاجی‌زاده (ایئر اسپیس کمانڈر) شامل ہیں۔

اسرائیل کے حملے کا ایک اور اہم مقصد ایران کے جوہری سائنسدان تھے۔ جاں بحق ہونے والوں میں فریدون عباسی (سابق چیئرمین ایٹمی توانائی ادارہ)، محمدمهدی طہرانچی (فزکس کے ماہر)، احمدرضا ذوالفقاری، سید امیرحسین فقهی، اور عبدالحمید مینوچہر جیسے نامور اساتذہ اور سائنسدان شامل ہیں۔

اسی روز شام کو ایران نے "وعده صادق 3” کے تحت اسرائیل پر جوابی حملہ کیا، جس میں 170 سے زائد میزائل اور ڈرونز داغے گئے۔ اسرائیل کے دفاعی نظام "آئرن ڈوم” نے کچھ میزائلوں کو تو روکا، لیکن کم از کم 30 میزائل حیفا، تل ابیب اور بن گوریون ایئرپورٹ کے اطراف گرے، جن سے رہائشی و صنعتی علاقوں میں شدید آگ لگ گئی۔

اسرائیلی حکام کے مطابق ان حملوں میں 40 افراد زخمی ہوئے جبکہ بنیادی ڈھانچے کو بڑا نقصان پہنچا۔ اسرائیلی کابینہ کی ہنگامی سیکیورٹی میٹنگ آدھی رات تک جاری رہی۔

اس صورتحال کے پیشِ نظر خلیجی عرب ممالک نے الرٹ جاری کر دیا ہے، اور اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے ہنگامی اجلاس طلب کر لیا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ حملے جاری رہے تو یہ محدود جھڑپ ایک بڑی علاقائی جنگ میں بدل سکتی ہے، جس میں ایران کے حمایت یافتہ گروہ جیسے حزب اللہ (لبنان)، مزاحمتی گروپ (عراق) اور حوثی باغی (یمن) بھی شامل ہو سکتے ہیں۔

ادھر امریکہ اور یورپی یونین کشیدگی کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، مگر فی الحال جنگ بندی کے آثار نظر نہیں آ رہے۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button