ایرانیوں کے لیے حج کا سفر دیگر مسلم ممالک کے مقابلے میں زیادہ مہنگا کیوں ہے؟
ایرانیوں کے لیے حج کا سفر دیگر مسلم ممالک کے مقابلے میں زیادہ مہنگا کیوں ہے؟
ایسے وقت میں جب بہت سے اسلامی ممالک اپنے شہریوں کو حکومتی تعاون اور بروکری نظام کے خاتمے کے ذریعے کم خرچ پر سرزمینِ وحی کی زیارت کا موقع فراہم کرتے ہیں، ایرانی زائرین کو اس دینی فریضے کی ادائیگی کے لیے نہایت بھاری رقم، بعض اوقات پندرہ گنا زیادہ، ادا کرنی پڑتی ہے۔
یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر ماہرین اور مذہبی حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کی جا رہی ہے۔
اس موضوع پر ایک خصوصی رپورٹ
حج کے موسم کے آغاز کے ساتھ ہی ایک بار پھر ایرانیوں کے لیے سب سے مہنگے مذہبی سفر کی بحث چھڑ گئی ہے۔
ایران کی حج و زیارت تنظیم کے مطابق، سن 1404 ہجری شمسی (مطابق 2025) میں ہر ایرانی زائر کے لیے حجِ تمتع کا خرچ 400 سے 500 ملین تومان کے درمیان مقرر کیا گیا ہے۔
یہ رقم نہ صرف عام ایرانی شہریوں کی معاشی حالت سے مطابقت نہیں رکھتی، بلکہ دیگر اسلامی ممالک کے مقابلے میں بھی انتہائی زیادہ ہے۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق، مختلف اسلامی ممالک نے حکومتی تعاون اور دلالوں کے خاتمے کے ذریعے اپنے شہریوں کے لیے حج کی لاگت میں خاطر خواہ کمی کی ہے۔
انڈونیشیا میں یہ خرچ تقریباً 2500 سے 3200 امریکی ڈالر، ملائیشیا میں 2700 ڈالر، جبکہ مصر میں 1500 سے 2500 ڈالر کے درمیان ہے۔
حتیٰ کہ بنگلہ دیش اور نائجیریا جیسے کم آمدنی والے ممالک بھی سعودی حکومت کے ساتھ مؤثر معاہدوں کے ذریعے اپنے شہریوں کے لیے حج کی لاگت کو 2000 ڈالر سے کم رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔
ایران میں، تاہم، نیم سرکاری حج نظام، ارز ترجیحی (سبسڈی والی کرنسی) کی عدم دستیابی، خصوصی چارٹر پروازوں کا استعمال، اور مالیاتی شفافیت کی کمی نے حج کے اخراجات میں بے تحاشا اضافہ کر دیا ہے۔
جرمن نشریاتی ادارے دویچے ویلے فارسی کے مطابق، ان اخراجات کا ایک حصہ ایسے خدمات پر خرچ ہوتا ہے جو زائرین کی اصل ضروریات سے مطابقت نہیں رکھتیں بلکہ زیادہ تر رسمی یا انتظامی نوعیت کی ہوتی ہیں۔
اس فرق کی ایک واضح مثال لندن میں مقیم ایک ایرانی زائر کی ویڈیو پیغام میں دیکھی جا سکتی ہے۔
اس نے بتایا کہ اس کا حج سفر، برطانیہ سے مکہ تک، صرف تقریباً 30 ملین تومان میں مکمل ہوا۔
یہ لاگت ریٹرن ٹکٹ، حرم کے قریب ہوٹل میں قیام، خوراک اور مقامی ٹرانسپورٹ سمیت تھی۔
وہ حیرت سے پوچھتا ہے: "مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ایران، جو برطانیہ کے مقابلے میں مکہ کے بہت قریب ہے، وہاں سے حج کا خرچ اتنا زیادہ کیوں ہے؟”
یہ نمایاں فرق ملک کے مذہبی اور معاشی ماہرین کے لیے ایک سنگین سوال بن چکا ہے: کیا ایک الٰہی فریضہ ایرانی مسلمانوں کے لیے اتنا مہنگا ہونا چاہیے؟
کیا اب وقت نہیں آ گیا کہ ایران کے حج انتظامی ڈھانچے کا ازسرِنو جائزہ لیا جائے اور اصلاحات کی جائیں؟
اس سوال کا جواب شفافیت، جرات مندانہ فیصلوں، اور عوام کے حقیقی مسائل پر توجہ دینے سے جڑا ہوا ہے۔
یہاں تک کہ ایک دن ایسا آئے کہ کوئی بھی ایرانی شہری صرف مالی مسائل کی وجہ سے اس عظیم دینی فریضے سے محروم نہ رہے۔