قاضی کے لئے اجتہاد کی شرط فقہا کے درمیان اختلافی مسئلہ ہے :آیت اللہ العظمی شیرازی

آیت اللہ العظمی سید صادق حسینی شیرازی کا روزانہ علمی اجتماع جمعرات، 17 ذی القعدہ سن 1446 کو منعقد ہوا جس میں وہ مختلف فقہی مسائل کے حوالے سے حاضرین کے سوالات کا جواب دیتے ہیں۔
آیت اللہ العظمی شیرازی نے حاکم شرع کی طرف سے قضاوت کی اجازت کے حکم کے بارے میں فرمایا: اگر حاکم شرع اور جامع الشرائط فقیہ اپنے کسی مقلد کو جو مجتہد نہیں ہے لیکن شرعی مسائل سے آگاہی رکھتا ہے، اذن دے، تو وہ قضاوت کر سکتا ہے۔
انہوں نے قاضی کے لیے اجتہاد کی شرط کے بارے میں فرمایا: یہ مسئلہ اختلافی ہے اور کچھ فقہا قاضی کے اجتہاد کے قائل ہیں جبکہ کچھ دیگر جیسے صاحب جواہر الکلام اور مرحوم آیت اللہ العظمی سید محمد شیرازی قاضی کے اجتہاد کو ضروری نہیں سمجھتے۔
انہوں نے تقلید، قضاوت، اور امامت جماعت میں عدل کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے فرمایا: میں نے کچھ عرصہ پہلے اجتہاد اور تقلید کے حوالے سے ایک مضمون تحریر کیا جس میں عدل کے مفہوم پر ۴۲ احادیث ذکر کی ہیں جن سے عدل کا مفہوم استنباط کیا جا سکتا ہے۔ تاہم، صاحب عروة الوثقی نے عدل کی تعریف یوں کی ہے اور میں نے بھی بعض فقہا سے اتفاق کرتے ہوئے اسے قبول کیا ہے کہ عدل ایک ملکۂ ہے اور محرمات سے پرہیز اور واجبات کی ادائیگی اس ملکۂ کے بغیر ممکن نہیں۔
آیت اللہ العظمی شیرازی نے عدل کے مفہوم کی مزید تشریح کرتے ہوئے فرمایا: عدل ایک ایسی ملکہ ہے جس کی وجہ سے کسی کو عادل کہا جاتا ہے، جیسے کہ شجاعت اور کرم ملکائیں ہیں جو ان کے حامل کو شجاع اور کریم کہلاتی ہیں۔ تاہم، عدل کا نتیجہ یہ ہے کہ انسان گناہ نہیں کرتا اور اگر کرے بھی تو فوراً توبہ کرتا ہے۔
انہوں نے ملکۂ عدل کے کاشف کے بارے میں فرمایا: روایات میں خاص دلیل موجود ہے کہ عدالت کے احراز میں ظن بھی کافی ہے اور علم کا ہونا ضروری نہیں۔
آیت اللہ العظمی شیرازی نے امامت جماعت کے لیے عدالت کے کچھ احکام کے بارے میں فرمایا: جماعت کی نماز میں، معصوم ؑ کی خاص روایت موجود ہے کہ اگر کوئی شخص تصور کرتا تھا کہ امام جماعت مسلمان، مومن، اور عادل ہے اور اس کے پیچھے نماز پڑھتا تھا، لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ وہ امام جماعت عادل نہیں تھا یا حتیٰ کہ یہودی تھا، تو خاص دلیل کی وجہ سے اس کی نماز باطل نہیں ہوتی۔
انہوں نے تاکید کی کہ عدالت ہر جگہ ایک جیسی حقیقت ہے لیکن اس کی مراتب مختلف ہو سکتے ہیں، جیسا کہ ایک شخص عادل ہے اور دوسرا اس سے زیادہ عادل ہے کیونکہ عدالت ایک ملکہ ہے جو ان تمام افراد میں پایا جاتا ہے جو اس صفت کے حامل ہیں۔
اسی طرح انہوں نے امامت جماعت، قضاوت، شہادت، اور ہر جگہ جہاں عدالت شرط ہے، اس عدالت کی یکسانیت پر زور دیتے ہوئے فرمایا: لیکن بعض فقہا جیسے صاحب حدائق کا خیال ہے کہ امامت جماعت میں عدالت قاضی اور مرجع تقلید کی عدالت سے مختلف ہے اور انہوں نے اس کے لیے بعض روایات سے استدلال کیا ہے۔ یہ نظریہ مشہور کے برعکس اور روایات کے مجموعہ کے ظاہر کے خلاف ہے۔
آیت اللہ العظمی شیرازی نے بعض مواقع پر، جیسے بیماریوں کی تشخیص کے حوالے سے جہاں ڈاکٹر اور ماہرین سے رجوع ضروری ہوتا ہے، عدالت کی شرط کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ ان معاملات میں یہ لازم نہیں کہ اہل ماہر عادل، مومن، یا حتیٰ کہ مسلمان ہو بلکہ ماہر ہونا اور قابل اعتماد ہونا کافی ہے، جیسے کہ قبلہ کی تعیین میں عروة الوثقی میں اسلام کی شرط کو بھی ضروری نہیں سمجھا جاتا۔