ماتمی انجمنیں اور حسینی شعائرمقالات و مضامین

اربعین یعنی چہلم

مولانا علی هاشم عابدی

اربعین یعنی چہلم، آل محمد علیہم السلام کی مصیبتوں کے 40 دن، یعنی حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا نے 40 دن سے اپنے بھائی امام حسین علیہ السلام کو نہیں دیکھا، حضرت ام البنین سلام اللہ علیہا کے چاروں بیٹوں کی شہادت کے 40 دن گذر گئے، جناب ام لیلی سلام اللہ علیہا کے جواں فرزند جناب علی اکبر علیہ السلام کی شہادت کو 40 دن بیت گئے، 40 دن ہو گئے حضرت رباب سلام اللہ علیہا کی اپنے شیر خوار علی اصغر علیہ السلام سے جدائی کے۔ یتیم حسن (علیہ السلام) کی پامالی کے 40 دن گذر گئے۔

کیا واقعہ کربلا سے بڑی بھی دنیا میں کوئی مصیبت ہو سکتی ہے؟ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے امام حسین علیہ السلام نے کیا کیا تھا کہ فوج جفا کار نے ان کو اور ان کے اصحاب باوفا کو پیاسا شہید کر دیا اور اہل حرم کو اسیر بنا لیا؟

آخر امیر المومنین امام علی علیہ السلام سے وہ کون سا بغض و کینہ تھا اور کیوں تھا کہ ان کی اولاد کو انتہائے مظلومیت سے شہید کر دیا گیا؟

حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی اسیری کے 40 دن گذر گئے اور غم و اندوہ میں ڈوبا اسیران کربلا کا قافلہ شہیدان کربلا کا چہلم منانے کربلا پہنچ گیا۔‌ کہتے ہیں کہ تین دن تک امام سجاد علیہ السلام اور بنی ہاشم نے مظلوم کربلا کے مزار پر عزاداری کی۔

تصور کریں کہ اسیران کربلا جب چہلم کے دن مزار شہداء پر پہنچے ہوں گے تو انہیں یقینا 11 محرم کو شہداء کے بے گور و کفن لاشے ضرور یاد آئے ہوں گے۔ جب حضرت زینب سلام اللہ علیہا اپنے مظلوم بھائی کی قبر پر پہنچی ہوں گی تو یقینا انہیں شام غریباں کا وہ منظر ضرور یاد آیا ہوگا کہ جب سینے پہ سونے والی تین سال کی سکینہ باپ کے بے گور و کفن لاشے سے لپٹی آرام کر رہی تھی۔ لیکن افسوس وہ بچی قید خانہ شام میں چھوٹ گئی۔ مظلوم بھائی کی قبر کے پائنتی جب اس بھتیجے کی قبر پر نظر پڑی ہوگی جسے عقیلہ بنی ہاشم نے بڑی محبت و شفقت سے خود پالا تھا تو کیا کیفیت ہوئی ہوگی؟

جب ثانی زہرا اپنے بھائی کے بچپن کے دوست حبیب ابن مظاہر (علیہ السلام) کی قبر کے قریب پہنچی ہوں گی تو روح حبیب (علیہ السلام) نے بڑھ کر سلام کیا ہوگا اور کہا ہوگا بی بی جب میں کربلا آیا تھا تو آپ نے مجھے سلام کہلایا تھا آج آپ کربلا تشریف لائی ہیں تو میں آپ کی خدمت میں سلام عرض کر رہا ہوں۔

تصور کریں کہ جب اسیران کربلا گنج شہیداں کے کنارے پہنچے ہوں گے اور انہیں سلام کیا ہوگا تو عجب نہیں ارواح شہداء نے اسیران کربلا خصوصا زینب کبری سلام اللہ علیہا کو عرض ادب کیا ہو گا کہ بی بی ہم نے اپنے وعدے کو پورا کیا آپ کو ہماری وفا پر یقین ہو گیا۔ لیکن ہمیں بھی آپ کی حکمت اور کرم پر یقین ہے کہ آپ نے قیامت تک کے لئے ہماری قربانیوں کو بقا عطا کی، ہمارا خون سرزمین کربلا پر بہا لیکن آپ نے اپنی حکمتوں اور خطبوں سے اسے آفاقی بنا دیا۔

مقتل میں تو نہیں دیکھا لیکن یقین ہے کہ جب زینب (سلام اللہ علیہا) کربلا پہنچی ہوں گی تو اپنے دل کی ڈھارس اور پردے کے محافظ اپنے شیر دل بھائی عباس (علیہ السلام) کے مزار پہ بھی پہنچی ہوں گی۔ وہ حضرت عباس (علیہ السلام) جو آغوش زینب (سلام اللہ علیہا) میں پروان چڑھ کر اتنے بلند قامت ہوئے کہ جب گھوڑے پر سوار ہوتے تو پیر زمین کو خط دیتے تھے، لیکن جب زینب (سلام اللہ علیہا) نے اس شیر دل بھائی کی چھوٹی سی قبر دیکھی ہوگی تو دل پہ کیا گزری ہوگی۔ عجب نہیں امام سجاد (علیہ السلام) سے پوچھا ہو بلکہ بار بار پوچھا ہو کیا یہی میرے عباس (علیہ السلام) کی قبر ہے؟

تین دن کربلا میں اسیران کربلا نے شہیدان کربلا کی عزاداری کی، جب اسیران کربلا کے سامنے آب فرات لایا جاتا ہوگا تو زینب کو اپنے بھائی کا سوکھا گلا یاد آتا ہوگا، رباب کو اپنے شیر خوار کے خشک ہونٹ یاد آتے ہوں گے۔ امام سجاد علیہ السلام کو شہیدوں کی تشنگی یاد آتی ہوگی۔ یقینا وہ پیاسی بچی بھی یاد آتی ہوگی جو قید خانہ شام میں اپنے بابا کو یاد کرتے کرتے سو گئی۔

بےشک مظلوم کربلا کے روضہ کی زیارت خدا کا کرم اور سعادت ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک سے کروڑوں زائرین کربلا میں شہیدان کربلا کی زیارت کے لئے پہنچ گئے یقینا وہ خوش نصیب اور سعادت مند ہیں۔ لیکن اس سے کہیں زیادہ عاشقان حسین (علیہ السلام) اپنے وطن میں زیارت حسین (علیہ السلام) کے لئے تڑپ رہے۔

دل میں بس یہی تمنا ہے کہ مظلوم کربلا کی زیارت نصیب ہو۔

اللهم ارزقنی زیارة الحسین علیه السلام

متعلقہ خبریں

Back to top button