خبریںدنیاعلم اور ٹیکنالوجی

 تخلیقی مصنوعی ذہانت کے پیٹنٹ میں چین کا دنیا میں پہلا نمبر

جین اے آئی کی موجودہ صورتحال پر ‘ویپو’ کی جاری کردہ نئی رپورٹ کے مطابق، اس معاملے میں چین نے امریکہ، جمہوریہ کوریا، جاپان اور انڈیا کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ علاوہ ازیں، 2014 سے 2023 کے درمیان دنیا بھر میں ‘جین اے آئی’ پر مبنی 54 ہزار ایجادات ہوئیں جن میں 25 فیصد سے زیادہ گذشتہ برس ریکارڈ کی گئیں۔

اس عرصہ میں چین سے ‘جین اے آئی’ کی 38 ہزار سے زیادہ ایجادات سامنے آئیں جو کہ امریکہ اور انڈیا سے چھ گنا زیادہ تھیں۔ سب سے زیادہ ایجادات کے اعتبار سے امریکہ دوسرے اور انڈیا پانچویں درجے پر ہے۔ اس عرصہ میں ان پانچوں بڑے ممالک میں اس ٹیکنالوجی پر مبنی ایجادات میں اضافہ کی سالانہ شرح 56 فیصد رہی۔ اب ‘جین اے آئی’ کا دائرہ روز مرہ زندگی سے متعلق سائنس، صنعتوں، نقل و حمل، سلامتی اور ٹیلی مواصلات تک پھیل رہا ہے۔

دورحاضر میں ‘جین اے آئی’ انقلابی ٹیکنالوجی کے طور پر سامنے آئی ہے جو لوگوں کے کام کرنے، رہن سہن اور کھیلنے کے طریقوں کو مثبت اور نمایاں طور سے تبدیل کر سکتی ہے۔

اس ٹیکنالوجی پر مبنی سب سے زیادہ ایجادات چین (38,210)، امریکہ (6,276)، جمہوریہ کوریا (4,155)، جاپان (3,409) اور انڈیا (1,350) میں ہوئیں۔

‘جین اے آئی’ کی ٹیکنالوجی کے حوالے سے جن ایجادات کے ملکیتی حقوق جاری کئے گئے ان میں بیشتر (17,996) کا تعلق تصاویر اور ویڈیو سے تھا۔ اس کے بعد تحریری مواد پر مبنی ایجادات (13,494) کو ملکیتی حقوق جاری کئے گئے۔ گفتگو/موسیقی پر مبنی مواد کی 13,480 ایجادات رجسٹرڈ ہوئیں۔

ویپو کا کہنا ہے کہ مستقبل میں ‘جین اے آئی’ نئے مالیکیول کی تیاری اور ادویہ سازی کو وسعت دینے میں مدد گار ثابت ہو سکتی ہے جبکہ اس سے دستاویزات کے انتظام و اشاعت کو خودکار بنایا جا سکتا ہے۔ علاوہازین، نچلی سطح پر اشیا کی فروخت، پبلک ٹرانسپورٹ کے نظام اور خودکار ڈرائیونگ سمیت صارفین کی خدمات کے لئے کام کرنے والے چیٹ بوٹس میں اس کا استعمال بڑھنے کا امکان ہے۔

متعلقہ خبریں

Back to top button