19 ذی الحجہ عالمی یوم مظلومیت کربلا
چند برسوں سے 19 ذی الحجہ کو شیعہ کلینڈر میں سرزمین کربلا سے متعلق ایک تاریخی واقعہ درج کیا جا رہا ہے۔
اس دن وہابیوں نے کربلاء معلی پر ایسا حملہ کیا جس سے وسیع پیمانے پر تباہی ہوئی کہ شاید ہی کوئی ایسا تاریخی ماخذ ہو جس میں اس کا ذکر نہ ملے۔
شائد 10 محرم سن 61 ہجری کے بعد کربلا معلی میں یہ حملہ دوسرا سب سے بڑا تاریخی حادثہ ہو، یہاں تک کہ بعض مورخین نے اسے عاشورہ دوم نام دیا ہے۔
اسی مناسبت سے مرجع عالی قدر آیۃ اللہ العظمیٰ سید صادق حسینی شیرازی دام ظلہ کی جانب سے 19 ذی الحجہ کو عالمی یوم مظلومیت کربلا قرار دیا گیا ہے۔
ذیل میں ہمارے رپورٹر ساتھی نے ایک رپورٹ میں اس مسئلے کا جائزہ لیا ہے جسے ہم دیکھتے ہیں۔
مظلومیت ہمیشہ سے کربلا کے نام سے جڑی ہوئی ہے اور ہزار سال سے زائد عرصے سے مظلومیت اس سرزمین کا حصہ ہے۔
سن 61 ہجری میں امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب باوفا کی شہادت سے لے کر اموی دور حکومت میں چاہنے والوں پر زیارت کی پابندی عائد کرنے تک، متوکل عباسی کے بے دریغ حملے اور کئی دوسرے حکمرانوں کے مظالم تک کہ امام حسین علیہ السلام کے نام و یاد اور عاشورہ کے اثرات نے ظالموں کی چولیں ہلا کر رکھ دیں۔
لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہابیوں کے ہاتھوں سن 1216 ہجری میں جو حملہ ہوا وہ اس قدر عظیم تھا کہ اس حملے کو عاشور دوم کہا گیا۔
19 ذی الحجہ 1216 ہجری کو عبدالعزیز بن سعود کی قیادت میں وہابیوں کا ایک گروہ حجاز سے عراق میں داخل ہوا جس نے کربلاء معلی پر حملہ کیا۔
وہابیوں کا یہ گروہ خیام حسینی کے راستے سے کربلا میں داخل ہوا اور وہاں موجود مرد و زن، بوڑھے اور بچوں کو بے دردی سے قتل کرنے کے ساتھ ساتھ اس شہر کے لوگوں کی مال و اسباب کو لوٹا، نیز امام حسین علیہ السلام کے روضہ مبارک کے قیمتی سامان کو لوٹ لیا۔
اس دن کربلا میں رہنے والوں کی ایک بڑی تعداد اپنی دیرینہ روایت کے مطابق یوم غدیر کی مناسبت سے نجف اشرف میں امیر المومنین علیہ السلام کی زیارت کے لیے گئے ہوئی تھی، شہر کربلا خالی تھا، وہاں حملہ آوروں سے مقابلہ کرنے کے لئے لوگ نہیں تھے۔
بعض تاریخی منابع کے مطابق اس حملے میں 7000 علماء و افاضل، دانشور و بزرگان اور سادات و مومنین کوچہ و بازار میں شہید ہوئے۔
اس کے علاوہ اس حملے میں امام حسین علیہ السلام کے روضہ مبارک کو بھی کافی نقصان پہنچا۔
یہ حادثہ اتنا عظیم تھا کہ تقریبا تمام تاریخی منابع نے اس کی تفصیل لکھی ہے اور اس کے جزئیات کی جانب بھی اشارہ کیا ہے۔
علامہ سید محسن امین مرحوم کتاب اعیان الشیعہ میں لکھتے ہیں: وہابی کربلا میں زبردستی داخل ہوئے، وہاں کے لوگوں کو قتل اور زخمی کیا، سوائے چند افراد کے جو فرار کر گئے یا چھپ گئے، انہوں نے امام حسین علیہ السلام کی قبر مبارک کو منہدم کیا، ضریح مبارک کو اکھاڑ دیا اور وہاں موجود املاک لوٹ کر لے گئے۔ انہوں نے اپنی اس حرکت سے متوکل عباسی کے حملے کی یاد تازہ کر دی۔
وہابی مورخین میں سے ایک عثمان بن بشر نے اس حملے کی تفصیل میں لکھا: وہابیوں نے قبر مبارک پر موجود گنبد کو منہدم کر دیا، قبر مبارک پر رکھے صندوق کہ جس پر زمرد، یاقوت اور دوسرے جواہرات لگے تھے لے لیا۔ انہوں نے کربلا میں جو کچھ بھی مال و دولت، اسلحے، کپڑے، قالین، سونا، چاندی اور قرآن کریم کہ نفیس نسخوں کو پایا سب لوٹ لیا، ظہر کے قریب تقریبا دو ہزار لوگوں کو قتل کر کے شہر سے نکل گئے۔
مرجع عالی قدر آیۃ اللہ العظمیٰ سید صادق حسینی شیرازی دام ظلہ نے اسی مناسبت سے اس دن کا نام عالمی یوم مظلومیت کربلا رکھا ہے اور یہ تاریخ میں درج ہو چکا ہے۔