شام میں ترکیہ اور اسرائیل کی خاموش جنگ ؛ ٹکڑوں میں بٹے ملک کے مستقبل پر رسہ کشی
سالہا سال کی خانہ جنگی کے بعد شام سیاسی نظمِ نو اور تعمیرِ نو کے مرحلے میں داخل ہوا ہے، لیکن دو علاقائی طاقتوں، ترکیہ اور اسرائیل، کے درمیان بڑھتی ہوئی رقابت اس ملک کو دوبارہ نیابتی جنگوں کے دلدل میں دھکیلنے کے خطرے کو شدید تر کر رہی ہے۔
انقرہ نے گزشتہ برسوں میں شمالی شام میں اپنی موجودگی کو وسعت دی تاکہ ایک طرف کردوں کی خودمختاری کو روکا جا سکے اور دوسری طرف مہاجرین کی واپسی کا راستہ ہموار ہو۔
لیکن اب، اسرائیل کی زیادہ براہِ راست مداخلت کے بعد یہ نازک توازن ٹوٹنے کے قریب ہے۔
المجلہ کے مطابق، اسرائیل نے گزشتہ مہینوں میں حمص، حماہ اور جنوبی دمشق میں فوجی اڈوں پر متعدد فضائی حملے کیے ہیں، جن کا نشانہ وہ ڈھانچے بنے جو ترکیہ مستقبل میں اپنے قیام کے لیے اہم سمجھ رہا تھا۔ کیسوا اور پالمیرا میں ترکیہ سے منسلک تنصیبات کی تباہی ان کارروائیوں کا حصہ ہے۔
مڈل ایسٹ نیوز کے مطابق، اسرائیل اپنی حکمتِ عملی شام کو کمزور اداروں کے ساتھ ایک ٹکڑوں میں بٹا ہوا ملک بنانے پر قائم رکھتا ہے۔ اس کے برعکس، ترکیہ ایک مضبوط مرکزی حکومت چاہتا ہے جو کردوں کو قابو میں رکھے اور تعمیرِ نو کو انقرہ کی شراکت سے آگے بڑھائے۔ یہ بنیادی تضاد دونوں کے درمیان کشیدگی کو شدید بنا رہا ہے۔
ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ تل ابیب اور انقرہ کے درمیان رابطے کے فقدان سے غلط فیصلے اور براہِ راست تصادم جنم لے سکتے ہیں، خاص طور پر اگر ترکیہ کھل کر جواب دینے یا شام میں اسرائیلی اہداف کو نشانہ بنانے کا فیصلہ کرتا ہے۔
اس خاموش جنگ کا اصل شکار شامی عوام ہیں جو ایک بار پھر طاقتوں کی رقابت کی آگ میں جلنے کے خطرے سے دوچار ہیں۔