اربعین زیارت اور مشی؛ ایک انوکھا تجربہ اور آنے والے چیلنجز
اربعین زیارت و مشی؛ ایک انوکھا تجربہ اور آنے والے چیلنجز
اس سال زیارت اربعین گزشتہ برسوں سے مختلف شکل میں انجام پائی، جس میں دنیا بھر سے لاکھوں زائرین نے شرکت کی۔ تاہم اس سال کے تجربے نے ظاہر کیا کہ آنے والے برسوں کے لئے طویل المدتی منصوبہ بندی، عطیہ دہندگان کی حمایت اور بنیادی ڈھانچے کی وسعت ضروری ہے تاکہ زائرین کی موجودگی زیادہ پرامن، محفوظ اور منظم ہو۔
اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔
اس سال زیارت اربعین گزشتہ برسوں کی نسبت مختلف اور نمایاں انداز میں منعقد ہوئی اور اس روحانی زیارت میں پاکستان، افغانستان، ہندوستان اور بعض افریقی ممالک سمیت 140 مختلف ممالک سے لاکھوں زائرین نے شرکت کی۔
یہ عظیم اجتماع عاشورہ اور عالمی یکجہتی کے پیغام کو عام کرنے کا ایک منفرد موقع ہے، لیکن اس سال کے تجربے سے معلوم ہوا کہ منصوبہ بندی میں محدودیتیں تھیں اور زائرین کے لئے بے شمار مسائل بھی تھے۔
سب سے بڑا چیلنج بعض حکومتوں کی رکاوٹ اور ویزا پابندیاں تھی۔
انتظامی دباؤ، طویل اور دشوار گزار زمینی راستوں اور سرحدوں پر طویل انتظار نے کچھ زائرین کے لئے سفر کو مشکل اور مہنگا بنا دیا۔
پاکستانی اور افغان زائرین کو سب سے زیادہ دباؤ کا سامنا کرنا پڑا، کچھ دنوں تک سرحدوں پر انتظار کرتے رہے۔
مرجع عالی قدر آیۃ اللہ العظمیٰ سید صادق حسینی شیرازی دام ظلہ نے عراقی حکومت اور تمام اسلامی حکومتوں کو نصیحت کی کہ پاسپورٹ، ویزا اور امام حسین علیہ السلام کی زیارت سے متعلق تمام اخراجات خاص طور پر اربعین کے موقع پر مفت کئے جائیں اور کسی بھی زائر کو راستے میں مال یا انتظامی رکاوٹوں کی وجہ سے پیچھے نہ چھوڑا جائے۔
ٹرانسپورٹیشن زیارت اربعین کے راستے کا ایک اور اہم پہلو ہے۔
زائرین کی نقل و حمل کا ایک مستقل ہیڈ کوارٹر قائم کرنا، راستوں کی احتیاط سے منصوبہ بندی کرنا، زمینی اور ہوائی جہازوں کو مربوط کرنا، بسوں اور ہوائی جہازوں کی صلاحیت کو بروئے کار لانا اور زائرین کو آگاہ کرنا سفر کے تجربے کو محفوظ اور ہموار بنا سکتا ہے۔
آیۃ اللہ العظمیٰ شیرازی نے کم آمدنی والے زائرین کے لئے چارٹرڈ طیارے اور مفت نقل و حمل کی فراہمی کے لئے مالدار تاجروں کے تعاون پر بھی زور دیا۔
زائرین خاص طور پر کم آمدنی والے زائرین کے لئے رہائش ایک اور اہم چیلنج ہے۔
شیعہ مخیر حضرات فعال شرکت کے ساتھ زائرین کے لئے ہوٹل، گیسٹ ہاؤس اور یہاں تک کہ پرائیویٹ گھر بھی فراہم کر سکتے ہیں، ساتھ ہی ساتھ زائرین کے لئے گھریلو ٹرانسپورٹ، خوراک اور صحت کی سہولیات زیادہ مناسب طریقے سے مہیا کر سکتے ہیں۔
یہ اقدامات اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ زائرین کو کربلا میں ایک مہذب اور پرامن تجربہ حاصل ہو۔
ماڈرن اور مفت رہائش کا انتظام کرنا جو روایتی رہائش سے مختلف ہے، جو زائرین خاص طور پر خواتین، بچوں اور بزرگوں کے لئے چیلنج ہے۔ آنے والے برسوں کے لئے ایک اہم ہدف ہونا چاہیے۔
کربلا کے بنیادی ڈھانچے کی وسعت، بشمول میٹرو، تیز رفتار بس لائنس، سڑکوں کی توسیع اور نئے ہوٹلز کی تعمیر دیگر اہم شعبہ ہیں۔ جو ثقافتی فلاحی ادارہ مصباح الحسین علیہ السلام کے طے کردہ وژن کی بنیاد پر 2030 میں 30 ملین زائرین کی حاضری ہے۔ یہاں تک کہ آنے والے برسوں میں 70 سے 100 ملین زائرین تک کو بغیر کسی مشکل کے سہولت فراہم کی جا سکتی ہے۔
آخر میں یہ کہنا چاہیے کہ طویل المدتی منصوبہ بندی، بین الاقوامی ہماہنگی، خیرین کی شمولیت اور بنیادی ڈھانچے کی وسعت کو بیک وقت عمل میں لانا چاہیے تاکہ لاکھوں زائرین کی موجودگی میں امن، سلامتی اور نظم و ضبط قائم ہو اور اربعین کے عالمی پیغام کو بہترین انداز میں پہنچایا جا سکے۔