
لکھنو۔ مولانا سید رضا حیدر زیدی نے 11 رمضان المبارک کو نہج البلاغہ کے باب کلمات قصار کی تیسری حدیث کے تیسرے فقرہ کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: اگر انسان فقیر ہو، تنگدست ہو تو چاہے جتنا بھی عقلمند کیوں نہ ہو دنیا اسے بے وقوف سمجھتی ہے کیونکہ اسے اپنی بات پیش کرنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔
مولانا سید رضا حیدر زیدی نے فقر کے معنی کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: جو انسان اپنی زندگی کی بنیادی ضرورتیں پوری نہیں کر سکتا وہ دین کی نظر میں فقیر ہے اور اسلام فقر و فاقہ اور تنگ دستی کو پسند نہیں کرتا ہے۔
مولانا سید رضا حیدر زیدی نے امیر المومنین علیہ السلام کی حدیث "آگاہ ہو جاؤ! بے شک فاقہ بلا میں سے ہے، فاقہ سے شدید بدن کی بیماری ہے، بدن کی بیماری سے شدید دل کی بیماری ہے۔ آگاہ ہو جاؤ! دل کا تقوی بدن کی صحت ہے۔” کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: جسم کی بیماری فقیری سے بڑی مصیبت ہے کیونکہ انسان کے پاس چیزیں ہوتی ہیں لیکن وہ استعمال نہیں کر سکتا، نہ کھا سکتا ہے نہ پی سکتا ہے، کسی کو میٹھا منع ہے تو کسی کو نمک تو کسی کو اور کوئی کھانا یا پانی منع ہے۔
مولانا سید رضا حیدر زیدی نے مزید فرمایا: بدن کی بیماری سے شدید دل کی بیماری ہے۔ کیونکہ بدن کی بیماری کا علاج ڈاکٹر کر سکتا ہے لیکن دل کی بیماری نفاق کا علاج ڈاکٹر نہیں کر سکتا۔ جیسا کہ روایت میں ہے کہ "آگاہ ہو جاؤ! مال کا فراوان ہونا اللہ کی نعمت ہے، اور فراوان مال سے بہتر بدن کی صحت ہے اور بدن کی صحت سے بہتر اور افضل دل کا تقوی ہے۔”
مولانا سید رضا حیدر زیدی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کی حدیث ” عنقریب فقر و تنگدستی انسان کو کافر بنا دیتی ہے۔” کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: فقر و تنگدستی فضیلت نہیں ہے، ممکن ہے کہ فقر و تنگدستی کے سبب انسان بے دین ہو جائے، ایسا مشاہدہ میں آیا ہے کہ جب انسان کی ضرورت پوری نہیں ہوتی تو وہ بے دین ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ دین کا سودا کر لیتا ہے۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ فقر و تنگدستی قابل مدح نہیں ہے۔