عید الاضحی ،قربانی اور عبادت كا مظھر
عید کے معنی خوشی کے ہیں اور اضحی کے معنی قربانی کے ہیں کیونکہ لفظ اضحی عربی زبان میں اضحاۃ یا اضحیہ کی جمع ہے جس کے معانی قربانی کے جانور کے ہیں اور اس دن کا دوسرا نام اسلامی اصطلاح میں یوم النحر بھی ہے جس کے معنی قربانی والے دن کے ہیں۔
۱۰ ذی الحجہ کو دنیا بھر کے مسلمان عیدالاضحی کا تہوار مناتے ہیں۔ یہ دن دراصل اس عظیم قربانی کی یادگار ہے جو حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل نے اپنے رب کے حکم کی اطاعت اور تعمیل حکم میں پیش کی تھی۔ اس بے مثال قربانی کے ذریعہ اعلان کیا جاتا ہے کہ اہلِ ایمان کے پاس جان و مال کا جو بھی سرمایہ ہے وہ اِسی لیے ہے کہ خدا کے اشارے پر اسے قربان کردیا جائے۔ جانوروں کی گردن پر چھری پھیرنا اور ان کا خون بہانا دراصل اِس بات کاعہد ہے کہ اے پروردگارجس طرح تیری رضا کے لیے ہمارے نزدیک جانوروں کے خون کی قیمت نہیں ہے، اسی طرح ہماری جانیں بھی تیری رضا کے لیےبےقیمت ہیں۔
امیرالمومنین امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: اگر لوگوں کو معلوم ہوتا کہ قربانی میں کیا کیا فائدے ہیں تو ہر سال قربانی کرتے اگرچہ قرض لینا ہی کیوں نہ پڑتا۔( بحارالانوار، علامہ مجلسی ، ج ۹۶، ص ۲۹۶ـ۲۹۸، مؤسسہ الوفاء)اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قربانی ایک ایسا عمل ہے کہ جس کے انجام کی تاکید غیرحاجی سے بھی کی گئی ہےکیونکہ اللہ نے اس میں خیر و برکت قرار دی ہے۔خدا وند کریم ارشاد فرماتاہے: ہم نے قربانی کے اونٹ کو بھی اپنی نشانیوں میں سے قرار دیا ہے اس میں تمہارے لئے خیر ہے(سورہ حج/ 36)
روایتوں میں قربانی کے متعدد مقاصد بیان ہوئے ہیں ۔
۱۔ تقویٰ
۲۔ گناہوں سے توبہ
جیسا کہ روایت ہے کہ ابوبصیر نےامام صادق علیہ السلام سے قربانی کی علت اور حکمت کے بارے میں سوال کیا تو حضرت نے فرمایا: "جب قربانی کے حیوان کے خون کا پہلا قطرہ زمین پر ٹپکتا ہے تو خدا قربانی کرنے والے کے تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے اور قربانی کے ذریعہ معلوم ہوتا ہے کہ کون پرہیزگار اور متقی ہے۔( بحارالانوار، علامہ مجلسی ، ج ۹۶، ص ۲۹۶ـ۲۹۸، مؤسسہ الوفاء)
۳۔ فقراء کی مدد۔ ،پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ فرماتے ہیں: "خداوند عالم نے قربانی کو واجب قرار دیا تاکہ مساکین اس کے گوشت سے استفادہ کر سکیں(بحارالانوار، علامہ مجلسی ، ج ۹۶، ص ۲۹۶ـ۲۹۸) اسی بنا پر تاکید کی گئی ہے کہ قربانی کا حیوان موٹا اور تازہ ہو اور اس کے گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے ایک حصہ اپنے اہل و عیال کیلئے دوسرا حصہ فقراء اور ضرورتمندوں کیلئے اور تیسرا حصہ صدقہ دیا جائے۔