
ایرانی طلبہ میں تعلیمی شوق میں نمایاں کمی اور اوسط نمبروں کا 9 سے نیچے گر جانا، ماہرین کو ملک کے علمی اور سماجی مستقبل کے حوالے سے شدید تشویش میں مبتلا کر رہا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ تعلیمی نظام کے سنگین مسائل اور طلبہ کی حقیقی ضروریات سے عدم توجہی، آئندہ نسل کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔
اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔
حالیہ برسوں میں ایرانی طلبہ کی تعلیمی صورتِ حال سنگین چیلنجز سے دوچار ہو چکی ہے۔
تعلیمی رغبت میں کمی، علمی معیار کی گراوٹ اور اوسط نمبروں کا 9 سے نیچے آ جانا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ طلبہ کی بڑی تعداد عملی طور پر اسکول اور سیکھنے کے عمل سے دور ہوتی جا رہی ہے۔
ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ اگر یہ رجحان جاری رہا تو اس کے تعلیمی معیار اور معاشرے کے مستقبل پر طویل وقت تک منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
والدین کی بے روزگاری، معاشی دباؤ، تعلیمی وسائل کی کمی اور اسکولوں کے انتظامی ضعف جیسے عوامل نے طلبہ کی حوصلہ افزائی کو کمزور کیا ہے اور کلاس روم میں ان کی فعال شرکت کو متاثر کیا ہے۔
ایسے حالات میں جب اسکول طلبہ کے وقت کا بڑا حصہ اپنے پاس رکھتے ہیں، ان کی حقیقی ضروریات کو نظر انداز کرنا اور حاشیائی مسائل پر توجہ مرکوز رکھنا اس بات کا سبب بنا ہے کہ بہت سے طلبہ علمی ترقی کے لئے ضروری جذبہ کھو بیٹھے ہیں۔
ملک کے مختلف اسکولوں سے آنے والی رپورٹس بتاتی ہیں کہ تدریس کے معیار اور تعلیمی مواد کو اکثر سنگین مسائل کا سامنا ہے، اور گہرے اور مؤثر سیکھنے کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے طلبہ کم علمی سطح حاصل کر رہے ہیں۔
تعلیمی رغبت میں کمی صرف اسکول تک محدود نہیں بلکہ نوجوان نسل کے پیشہ ورانہ اور سماجی مستقبل پر بھی براہِ راست اثر ڈالے گی۔
ماہرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ تعلیمی شوق کی بحالی کے لئے تعلیمی ڈھانچے میں اصلاحات، نصاب کے معیار میں اضافہ اور طلبہ کی حقیقی ضروریات پر سنجیدہ توجہ ناگزیر ہے۔
محکمۂ تعلیم کو چاہیے کہ علمی سطح بلند کرنے، طلبہ کی حمایت اور مؤثر سیکھنے کے مواقع پیدا کرنے کے لئے منظم پروگرام پیش کرے، تاکہ ایک بے حوصلہ اور نااُمید نسل کی تشکیل سے بچا جا سکے۔
بصورتِ دیگر تعلیمی زوال اور آئندہ نسل کی حوصلہ شکنی ملک کے لئے ایک سنگین بحران میں تبدیل ہو جائے گی۔




