ایران میں علاج کا بحران؛ بزرگ شہری دوا اور ڈاکٹر کے لئے اپنی جائیدادیں بیچنے پر مجبور
ایران میں علاج کا بحران؛ بزرگ شہری دوا اور ڈاکٹر کے لئے اپنی جائیدادیں بیچنے پر مجبور
ایران میں علاج کے اخراجات میں بے مثال اضافے اور نظامِ صحت کی ناکارکردگی نے بزرگ شہریوں اور مریضوں کو اس حد تک مجبور کر دیا ہے کہ وہ اپنی جائیدادیں فروخت کریں یا علاج ترک کر دیں۔
اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔
ایران میں بزرگوں اور مریضوں کی حقیقی زندگی، موجودہ حکومتی حکام کی جانب سے پیش کئے جانے والے ترقی کے نعروں سے بالکل مختلف تصویر پیش کرتی ہے۔
شیعہ خبر رساں ایجنسی نے خبرگزاری ایلنا کے حوالے سے رپورٹ کیا کہ قوّتِ خرید میں کمی، ادویات اور علاج کے اخراجات میں اضافہ اور بیمہ نظام کی ناکامی کے باعث بہت سے ایرانی ریٹائرڈ افراد علاج جاری رکھنے کے لئے اپنی جائیدادیں بیچنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق، صحت کے شعبہ میں عوام کی جیب سے ہونے والی ادائیگی کا حصہ ریٹائرڈ افراد کے لئے تقریباً 70 فیصد تک پہنچ چکا ہے، جبکہ ساتویں ترقیاتی منصوبے کے مطابق یہ شرح 35 فیصد ہونی چاہیے تھی۔
کینسر جیسی لاعلاج بیماریوں میں علاج کے اخراجات بعض اوقات 900 ملین تومان تک پہنچ جاتے ہیں، اور کم از کم پنشن پانے والے ریٹائرڈ افراد کے لئے 30 فیصد فرانشیز کی ادائیگی صرف جائیداد بیچنے یا سابقہ بچت استعمال کرنے سے ہی ممکن ہوتی ہے۔
تکمیلی اور طلائی بیمہ منصوبے بھی عملاً عوام پر مالی دباؤ میں اضافہ کر رہے ہیں اور ریٹائرڈ افراد کو بھاری بیمہ فیس ادا کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔
ملکی کرنسی کی قدر میں شدید کمی اور ادویات و غذائی اشیاء کے شعبہ میں بے قابو مہنگائی نے کمزور طبقات کے لئے علاج تک رسائی کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔
تہران چیمبر آف کامرس کے کمیشن برائے معیشتِ صحت کے سربراہ محمد عبدہزادہ نے خبردار کیا ہے کہ سال 1404 ہجری شمسی کے آخری تین مہینے، حالیہ دہائیوں میں ادویات کی صنعت کے لئے سب سے مشکل دور ثابت ہو سکتے ہیں۔
علاج کا یہ بحران جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ سنگین سماجی نتائج بھی رکھتا ہے، جن میں غربت میں اضافہ، خاندانوں کا بکھراؤ اور بزرگوں و مریضوں پر شدید نفسیاتی دباؤ شامل ہے۔
صنفی کارکنان اور ریٹائرڈ افراد اس بات پر زور دیتے ہیں کہ عوام کی علاج کی ضروریات سے غفلت اور مالی وسائل کو بیرونِ ملک ترجیح دینا، حکومت کی جانب سے اپنی بنیادی ذمہ داریوں، یعنی عوام کی بنیادی ضروریات کی تکمیل سے پسپائی کی علامت ہے۔




