اسلامی دنیاتاریخ اسلام

فاضل مقداد: شیعہ فقہ و کلام کے عظیم ستون

آٹھویں اور نویں صدی ہجری کے عظیم شیعہ عالم، فقیہ و متکلم جناب ابوعبداللہ مقداد بن عبداللہ بن محمد بن حسین سیوری حلّی اسدی غروی، المعروف بہ فاضل مقداد رضوان اللہ تعالی علیہ اہل علم و نظر کے نزدیک محترم و مکرم شخصیت ہیں۔ آپ سیور (حلّہ کے نزدیک ایک دیہات) کے رہنے والے تھے اور عراق میں مقیم قبیلہ بنی اسد سے تعلق رکھتے تھے۔ جب شہیدِ اول رحمۃ اللہ علیہ نے نجف اشرف کی جانب ہجرت کی تو فاضل مقداد ان کے ممتاز شاگردوں میں شامل ہو گئے۔

فاضلِ مقداد نے اپنی عمر کے آخری سال 826ھ میں مدرسۂ مقداد تعمیر کرایا جو حوزۂ علمیہ نجفِ اشرف کے قدیم ترین دینی مدارس میں شمار ہوتا ہے۔ یہ مدرسہ نجف کے معروف محلہ "مشراق” میں مسجدِ اصاغہ کے سامنے واقع ہے۔ دسویں صدی ہجری کے آخری برسوں تک آباد رہنے کے بعد یہ بے توجہی کا شکار ہو گیا، یہاں تک کہ 1250ھ میں سلیم خان شیرازی نے اسے ازسرِ نو تعمیر کروایا اور یہ مدرسۂ سلیمیہ کے نام سے مشہور ہوا۔ اس کی آخری تعمیر 1340ھ میں سید ابوالقاسم وکیل کے زیرِ اہتمام انجام پائی۔

جناب فاضلِ مقداد کے اساتذہ میں علماء اعلام شہیدِ اوّل، فخرالمحققین، سید ضیاءالدین عبداللہ الاعرجی اور سید عمیدالدین رضوان اللہ تعالی علیہم جیسی عظیم شخصیات شامل ہیں۔ ان کے شاگردوں میں شیخ شمس الدین محمد بن شجاع قطّان انصاری حلّی، رضی الدین عبدالملک، شیخ زین الدین علی بن حسن اور شیخ حسن بن راشد حلّی رضوان اللہ تعالی علیہم کے نام نمایاں ہیں۔

فاضلِ مقداد ایک محقق، عمیق نظر مفکر، صاحبِ قلم ادیب اور عظیم ذہن کے حامل عالم تھے۔ انہوں نے اپنے غیر معمولی علمی نبوغ اور علومِ وافِرہ کی بدولت بے شمار کتابیں تصنیف فرمائیں جو آج تک عالمِ اسلام کے قیمتی علمی ذخیرے میں شمار ہوتی ہیں۔ ان کی تصانیف اسلوبِ بیان کی عمدگی، معنوی اتقان اور فکری استحکام کے اعلیٰ نمونے ہیں۔

علامہ مجلسی نے "بحارالانوار” میں آپ کی دو کتابوں "کنز العرفان فی فقه القرآن” اور "ارشاد الطالبین الی نهج المسترشدین” کو مصادر میں شامل کیا اور انہیں خاص طور سے مسئلۂ امامت کے باب میں انتہائی اہم قرار دیا۔ شیخ حرّ عاملی نے "ارشاد الطالبین” کو اپنی کتاب "اثباتُ الہُداة” کے اہم مصادر میں شامل کیا۔

فاضل مقداد کی کتابیں جن میں سے بہت سی ابھی تک شائع نہیں ہوئیں، مندرجہ ذیل ہیں: آدابِ حج، الاربعون حدیثاً، ارشادُ الطالبین، الاعتماد، الانوار الجلالیہ، تجویدُ البراعۃ، تفسیرِ مغمضاتِ قرآن، التنقیح الرائع، جامعُ الفوائد، کنزُ العرفان فی فقہِ قرآن، اللوامع الالٰہیہ، المسائل المقدادیہ، النافع یوم الدین، نضدُ القواعد اور دیگر متعدد تصانیف۔

مولف روضاتُ الجنّات نے "اللوامع الإلہیۃ” کو علمِ کلام میں بہترین کتابوں میں شمار کیا جو ظاہری ترتیب اور باطنی استحکام کے اعتبار سے نہایت ممتاز ہے۔ "التنقیح الرائع” فقہِ استدلالی کی نہایت متین کتابوں میں سے ہے جس کا اسلوب شستہ و رواں اور قیمتی علمی معلومات پر مشتمل ہے۔

جناب فاضلِ مقداد نے علمِ کلام میں وسیع اور گہری تحقیقات انجام دیں۔ وہ ان بزرگ شخصیات میں سے ہیں جنہوں نے اس علم کے ستونوں کو مضبوط کیا۔ وہ علمِ کلام کو غیر معمولی اہمیت دیتے تھے اور فروعی مسائل سے پہلے کلامی مسائل پر غور و فکر کرتے تھے۔

انہوں نے "الانوار الجلالیۃ” میں لکھا کہ چونکہ علمِ کلام دیگر علوم کے مقابلے میں دلیل و برہان کے اعتبار سے زیادہ مضبوط، بیان میں زیادہ واضح، موضوع میں زیادہ شریف اور اصول و فروع کے لحاظ سے زیادہ کامل ہے، لہٰذا اس کا دیگر علوم پر مقدم ہونا ضروری ہے۔

النافع یوم الحشر: علامہ حلّی کی "باب حادی عشر” کی شرح ہے جو دیگر تمام شروح پر اہمیت میں ممتاز ہے۔ اسے متعدد مرتبہ شائع کیا گیا اور فارسی و انگریزی میں ترجمہ ہوا۔

الانوار الجلالیّہ: یہ خواجہ نصیرالدین طوسی کی "فصولِ نصیریہ” کی شرح ہے جو آپ کے نانا نے فارسی سے عربی میں ترجمہ کی تھی۔

ارشاد الطالبین: علامہ حلّی کی "نہج المسترشدین” کی شرح جو 792ھ میں مکمل ہوئی۔

فاضل مقداد نے قرآنِ کریم کو فقہِ استدلالی کے بنیادی مصادر میں شمار کیا۔ اسی بنا پر انہوں نے "کنز العرفان فی فقہ القرآن” تالیف کی جس کا موضوع آیاتُ الاحکام ہے۔ یہ کتاب گزشتہ چار صدیوں سے فقہی اور قرآنی کتب میں نہایت مشہور اور معتبر شمار ہوتی ہے۔

آیۃ اللہ العظمیٰ مرعشی نجفی نے "کنز العرفان” کو شیعہ و سنی دونوں مکاتب میں آیاتِ احکام پر لکھی گئی بہترین کتابوں میں شمار کیا۔ یہ کتاب سید علی طباطبائی کی "ریاض المسائل” اور علامہ مجلسی کی "بحار الانوار” کے فقہی، روائی اور تفسیری مصادر میں سے ہے۔

"کنز العرفان” کو تفسیر مجمع البیان کی طرح شیعہ فقہاء و مفسرین کے نزدیک خاص مقام حاصل ہے اور اہلِ سنّت کے فقہاء و مفسرین میں بھی بڑی شہرت ملی۔ "التفسیر والمفسرون” کے مؤلف نے اسے اہلِ سنّت کے اکابر علماء کی کتابوں میں شامل کر کے تعارف پیش کیا۔

جناب فاضل مقداد رضوان اللہ تعالی علیہ نے 26 جمادی الثانی 826 ہجری کو وفات پائی اور نجف اشرف میں دفن ہوئے۔ وہ علومِ عقلی و نقلی کے جامع تھے اور علمِ کلام، فقہ، تفسیر، اصول، حدیث، معانی و بیان جیسے مختلف علوم میں ایسے عظیم آثار چھوڑے جو ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ ان کے آثار فقہی، قرآنی، ادبی اور روائی علوم کے معتبر مصادر میں شمار ہوتے ہیں اور علماء و فقہاء کے لئے مسلسل موردِ استفادہ ہیں۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button