شیعہ مرجعیت

حضرت ام البنین سلام اللہ علیہا: مادر شہداء کی عظمت اور قربانی کا لازوال نقش

حضرت ام البنین سلام اللہ علیہا: مادر شہداء کی عظمت اور قربانی کا لازوال نقش

13 جمادی الثانی کو پوری دنیا میں شیعہ مسلمان امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی زوجہ محترمہ اور قمر بنی ہاشم حضرت ابوالفضل العباس علیہ السلام کی والدہ ماجدہ حضرت ام البنین سلام اللہ علیہا کا یوم شہادت عقیدت و احترام سے مناتے ہیں۔
یہ وہ عظیم خاتون تھیں جنہوں نے اپنے چار شیر بیٹوں کو راہ خدا اور امام حسین علیہ السلام کی نصرت کے لیے قربان کر دیا۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے حضرت عباس علیہ السلام کے بارے میں فرمایا کہ خدا ان پر اپنی بے پایاں رحمتیں نازل فرمائے، انہوں نے کیا ہی بہترین امتحان دیا اور ایثار کی وہ منزلت حاصل کی کہ خود شہداء بھی ان کے مقام پر رشک کرتے ہیں۔
یہ جوانمردی، خلوص اور فداکاری حضرت ام البنین کی تربیت کا نتیجہ تھی۔

امیر المومنین علی علیہ السلام نے اپنے بھائی عقیل سے فرمایا تھا کہ میرے لیے ایسی خاتون تلاش کرو جو شجاع خانوادے سے ہو تاکہ اس کے ذریعے مجھے شجاع بیٹا حاصل ہو۔
چنانچہ جناب عقیل نے حضرت ام البنین کا انتخاب کیا اور اللہ نے ان کے گھر میں چار بیٹے عطا کیے جو وفا، شجاعت، ایثار اور شہادت کے سلطان تھے۔

روز تاسوعا جب دشمن کے سردار شمر ملعون نے حضرت عباس اور ان کے بھائیوں کو امان نامہ دینے کی پیشکش کی تو حضرت عباس نے جلال میں اسے ڈانٹتے ہوئے فرمایا: "خدا تجھ پر اور اس پر بھی لعنت کرے جس نے یہ امان نامہ تیرے ہاتھ میں دیا۔ کیا تجھے یہ وہم ہوا کہ میں اپنی جان بچانے کے لیے اپنے امام حسین علیہ السلام کو چھوڑ کر تیرے پیچھے چل پڑوں گا؟” اور فرمایا کہ جس دامن میں ہم پروان چڑھے ہیں، اس نے ہمیں اس طرح کی تربیت نہیں دی۔

روز عاشور جب بنی ہاشم کی باری آئی تو حضرت عباس نے اپنے چھوٹے بھائیوں سے فرمایا کہ پہلے تم میدان میں جاؤ تاکہ میں اپنے بھائیوں کی شہادت کا اجر حاصل کروں۔ یکے بعد دیگرے تینوں بھائی شہید ہوئے اور پھر خود حضرت عباس بھی جام شہادت نوش کر گئے۔

جب مدینہ میں حضرت ام البنین کو خبر ملی کہ آپ کے چاروں فرزند کربلا میں شہید ہو گئے تو آپ کا عالم یہ تھا کہ کبھی راہ عراق کے کنارے اور کبھی بقیع میں بیٹھ کر اپنے شیروں کو یاد کر کے گریہ کرتی تھیں۔ آپ کے نوحے میں وہ درد تھا کہ مروان جیسا سنگ دل دشمن بھی اپنے آنسو نہ روک پاتا تھا۔

آپ کہتی تھیں: "مجھے ام البنین کہہ کر نہ پکارو کہ اس سے مجھے میرے شیر بیٹے یاد آتے ہیں۔ کبھی وہ میرے بیٹے تھے لیکن اب ان میں سے کوئی باقی نہیں۔”

حضرت عباس کو یاد کرتے ہوئے کہتی تھیں: "مجھے خبر دی گئی کہ میرا بیٹا سر پر زخم کھا کر شہید ہوا اور وہ بے دست تھا۔ اے عباس! اگر تیرا ہاتھ سلامت ہوتا تو کسی میں تیرے قریب آنے کی جرات نہ تھی۔”

حضرت ام البنین کی عظمت یہ ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹوں کو ایسی تربیت دی کہ وہ راہ حق میں جان قربان کر گئے اور آج تک تاریخ کے افق پر جلوہ گر ہیں۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button