تاریخ اسلامشیعہ مرجعیت

آیۃ اللہ میرزا محمد حسن آشتیانی رحمہ اللہ — فقہ، روحانیت اور اخلاقِ محمدی کا نورانی چراغ

28 جمادی الاول 1319 ہجری قمری کو عالمِ اسلام خصوصاً تشیع ایک ایسے عالمِ ربانی سے محروم ہو گیا جس کی پوری زندگی علم، تقویٰ، زہد، عبادت اور انسانیت کی خدمت میں بسر ہوئی۔ آیۃ اللہ میرزا محمد حسن آشتیانی رحمہ اللہ اپنے دور کے عظیم فقہاء اور محققین میں نمایاں مقام رکھتے تھے۔ ان کی فقاہت، علمی گہرائی، روحانی وقار اور تواضع نے انہیں اپنے ہم عصر علماء میں ممتاز بنا دیا تھا۔

علمی مقام اور روحانی عظمت

آیۃ اللہ مدرّس تبریزی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ میرزا آشتیانی رحمہ اللہ "محقق، عالم و فاضل، اور ایرانی علماء و مجتہدین کے نمایاں ترین افراد میں سے تھے۔ وہ اپنے فضل و کمال، دیانت داری اور امانت کے باعث معروف تھے۔”
مرحوم کشمیری نے بھی انہیں "اعاظم علماء کرام” اور "متفقہ اصولیین” میں شمار کیا اور ان کی فقہی بصیرت کو غیر معمولی قرار دیا۔

ان کے ممتاز شاگرد آیۃ اللہ سید محمد تنکابنی رحمہ اللہ—جو پندرہ سال سے زیادہ عرصے تک ان کی درس گاہ میں حاضر رہے—لکھتے ہیں کہ استاد ہمیشہ عبادات کے پابند تھے۔ نمازِ شب، زیارت عاشورا اور زیارت جامعہ کبیرہ کی تلاوت انہوں نے عمرِ بھر نہیں چھوڑی۔ وہ علمی میدان میں بے حد فعال تھے، تصنیف و تالیف میں مشغول رہتے اور عوام کے شرعی سوالات کا بڑی سنجیدگی اور ذمہ داری سے جواب دیتے تھے۔

ان کے فرزند شیخ مرتضی آشتیانی رحمہ اللہ نقل کرتے ہیں کہ والدِ محترم کی وفات کے وقت زبان پر زیارت جامعہ کبیرہ کے یہ مبارک الفاظ تھے:
"من والاکم فقد والی الله و من عاداکم فقد عادالله و من أحبّکم فقد أحبّ الله…”

معاصر علماء کے نزدیک مقام

آیۃ اللہ سید محمد مهدی موسوی اصفہانی رحمہ اللہ نے انہیں "اپنے زمانے کا فاضل ترین عالم اور عظیم مجتہد” قرار دیا۔ ان کے مطابق میرزا آشتیانی رحمہ اللہ نہ صرف علم میں بلند مقام رکھتے تھے بلکہ دیانت، پرہیزگاری اور اخلاق میں بھی بے مثال تھے۔ عوام اور خواص دونوں ان کی امانت داری اور فقہی صلاحیتوں پر کامل اعتماد رکھتے تھے۔

تواضع و انکساری کا روشن باب

شیخ مرتضی انصاری رحمہ اللہ کے وصال کے بعد مرجعیتِ عامہ کے تعین کا مسئلہ سامنے آیا۔ تمام ارشد شاگرد جمع ہوئے اور میرزا محمد حسن شیرازی رحمہ اللہ کو اس عظیم ذمہ داری کے لئے منتخب کیا۔ لیکن میرزا شیرازی رحمہ اللہ نے انتہائی عاجزی سے میرزا آشتیانی رحمہ اللہ کو خود سے زیادہ موزوں قرار دیا۔

اس پر میرزا آشتیانی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ان کی طبیعت میں موجود وسواس اور عدمِ قاطعیت امت کے لئے نقصان دہ ہو سکتی ہے، لہٰذا یہ منصب ان پر حرام اور میرزا شیرازی رحمہ اللہ کے لئے واجبِ عینی ہے۔ تمام علماء نے اس رائے کی تائید کی۔ بالآخر میرزا شیرازی رحمہ اللہ نے آنسوؤں کے ساتھ یہ ذمہ داری قبول کی۔

اسفار اور دینی خدمات

میرزا آشتیانی رحمہ اللہ نے ابتدائی دینی تعلیم آشتیان اور بروجرد میں حاصل کی، پھر اعلیٰ تعلیم کے لئے عتباتِ عالیات کا سفر کیا۔ 1283 ہجری قمری میں وہ تہران تشریف لائے جہاں انہوں نے تدریس اور فقہی خدمات کا عظیم سلسلہ شروع کیا۔

1311 ہجری قمری میں انہوں نے حجِ بیت اللہ کی سعادت حاصل کی اور پھر شام، فلسطین اور دمشق میں مقدس مقامات کی زیارت کے لئے گئے۔ دمشق میں علمائے اہل سنت نے تمباکو کے تاریخی فتوے کے بارے میں سوال کیا جس پر انہوں نے بڑی حکمت سے جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ میرزا شیرازی رحمہ اللہ نے یہ فتویٰ غیر ملکی تسلط اور مسلمانوں پر سیاسی اثرات کے باعث دیا تھا، اور جب خطرہ ٹل گیا تو حکم کی ضرورت بھی باقی نہ رہی۔

وفات اور جسمِ مطہر کی کرامت

28 جمادی الاول 1319 ہجری قمری کو وہ زیارت جامعہ کبیرہ کی تلاوت کرتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ان کے جنازے میں علماء اور مومنین کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ انہیں پہلے حضرت عبدالعظیم حسنی علیہ السلام کے جوار میں بطورِ امانت دفن کیا گیا۔

آٹھ ماہ بعد جب جسدِ مطہر کو نکالا گیا تو ان کے فرزند کے مطابق جسم میں ذرّہ برابر بھی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ یہاں تک کہ وفات کے وقت ران میں موجود ورم بھی اسی حالت میں برقرار تھا۔ بعد ازاں انہیں پورے احترام کے ساتھ نجفِ اشرف منتقل کیا گیا اور علامہ شیخ جعفر شوشتری رحمہ اللہ کے پہلو میں دائمی آرام گاہ میں سپرد خاک کیا گیا۔

آیۃ اللہ میرزا محمد حسن آشتیانی رحمہ اللہ کی پوری زندگی علم، تقویٰ، اخلاص اور خدمتِ خلق کی سنہری مثال ہے۔ ان کا علمی، روحانی اور اخلاقی سرمایۂ حیات آنے والی نسلوں کے لئے ہمیشہ مشعل راہ رہے گا۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button