برطانوی عدالت کا متنازع فیصلہ: اسلام کی توہین کو "آزادی اظہار” قرار دے دیا گیا
برطانوی عدالت کا متنازع فیصلہ: اسلام کی توہین کو "آزادی اظہار” قرار دے دیا گیا
ایک ایسے فیصلے نے دنیا بھر کے مسلم حلقوں میں غم وغصے کی لہر دوڑا دی ہے جس میں برطانیہ کی ایک عدالت نے قرار دیا ہے کہ اسلام پر تنقید، چاہے وہ توہین آمیز اور اشتعال انگیز انداز میں ہی کیوں نہ ہو، "عقیدے کی آزادی” کے دائرے میں آ سکتی ہے جسے برطانیہ کے 2010ء کے مساوات کے قانون کے تحت تحفظ حاصل ہے۔
یہ مقدمہ ایک برطانوی سیکیورٹی ماہر سے متعلق تھا جس نے سوشل میڈیا پر اسلام اور پیغمبرِ اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ کے بارے میں توہین آمیز اور نازیبا تبصرے کیے تھے، حتیٰ کہ اسلام کو "بنیادی طور پر شر” اور "1300 سال پرانی فریب کاری” قرار دیا تھا۔
اگرچہ اس کے پیشہ ورانہ ادارے نے اس پر 22 ہزار پاؤنڈ سے زائد جرمانہ عائد کیا اور دو سال کے لیے اُس کی پیشہ ورانہ سرگرمیاں معطل کر دیں، عدالت نے بعد میں قرار دیا کہ اس کے خیالات ’’شخصی عقائد‘‘ کے زمرے میں آتے ہیں جنہیں قانونی تحفظ حاصل ہے۔
اس فیصلے نے برطانیہ سمیت پورے مغرب میں دوہرے معیار پر بحث چھیڑ دی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق مغربی عدالتیں عیسائیت یا یہودیت کے خلاف کسی تضحیک کو "نفرت انگیز جرم” سمجھتی ہیں، لیکن اسلام کے خلاف توہین کو "علمی بحث” قرار دے دیتی ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ یورپ میں بڑھتی ہوئی اسلام دشمن فضا کی قانونی توجیہ فراہم کرتا ہے، اور ایسی سوچ مسلمانوں کے خلاف منظم نفرت کو فروغ دے رہی ہے۔
برطانیہ کی اسلامی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اس طرح کے فیصلے معاشرتی ہم آہنگی کو نقصان پہنچاتے ہیں اور اقلیتوں میں غیر مساوات کا احساس بڑھاتے ہیں۔




