افریقہخبریں

سودان انسانی تباہی کے دہانے پر؛ الفاشر سے ہزاروں افراد کی جبری ہجرت اور دارفور کی جنگ میں غیر ملکی طاقتوں کا خفیہ کردار

شمالی دارفور صوبہ کے مرکز الفاشر شہر پر ریپڈ اسپورٹ فورسز کے قبضے کے بعد سودان میں تشدد، قتل و غارت اور جبری نقل مکانی کی نئی لہر شروع ہوگئی ہے۔

اسی دوران علاقائی اور عالمی طاقتوں کی خفیہ مداخلتوں نے اس بحران کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔

اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔

شمالی سودان سے ملنے والی مقامی اطلاعات کے مطابق، الفاشر شہر کے ہزاروں باشندے کئی ہفتوں کی لڑائی اور محاصرے کے بعد قتل و تشدد کے خوف سے طویلہ اور الدبہ شہروں کی جانب فرار کر گئے ہیں۔

یہ بے وطن لوگ طویل اور دشوار راستے طے کر کے ایسے حالات میں پہنچے ہیں جہاں انہیں پانی، خوراک اور پناہ کی شدید کمی کا سامنا ہے۔

تنظیم "ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈرز” نے بتایا کہ بہت سے پناہ گزین، خصوصاً بچے، غذائی قلت اور وبا کی بیماریوں میں مبتلا ہیں، جبکہ سینکڑوں ہزار دیگر افراد کی حالت اور انجام کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں۔

ایسوشی ایٹڈ پریس اور عالمی ادارۂ صحت (WHO) کی رپورٹس کے مطابق، 26 اکتوبر کو ریپڈ اسپورٹ فورسز کے شہر پر قبضے کے بعد، 80000 سے زائد افراد الفاشر کے نواحی علاقوں سے نقل مکانی پر مجبور ہوئے، اور کم از کم 450 عام شہری سعودی اسپتال پر حملے میں مارے گئے۔

سیٹلائٹ تصاویر اور ویڈیوز میں اجتماعی قبروں کی موجودگی کی بھی تصدیق کی گئی ہے۔

اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کے خصوصی مشیر برائے انسدادِ نسل کشی نے خبردار کیا ہے کہ: “سودان میں بڑے پیمانے پر جرائم کے ارتکاب کی حد ٹوٹنے کے قریب ہے” اور واضح کیا ہے کہ شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ عام شہریوں پر براہِ راست اور دانستہ حملے کئے جا رہے ہیں۔

سیاسی سطح پر، سودان کا بحران اب محض فوجی کمانڈروں کی خانہ جنگی نہیں رہا بلکہ غیر ملکی طاقتوں کے درمیان اثر و رسوخ کی جنگ میں تبدیل ہو گیا ہے۔

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ امارات، سعودی عرب، مصر اور روس کی خفیہ مداخلت — جو مالی اور عسکری امداد کے ذریعے متحارب فریقوں کی پشت پناہی کر رہی ہیں — قیامِ امن اور جنگ بندی میں سب سے بڑی رکاوٹ بن چکی ہیں اور سودان کو انسانی و سکیورٹی زوال کے کنارے لا کھڑا کیا ہے۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button