16 ربیع الاول؛ قاجاریہ بادشاہ سرنڈر اور برطانوی استعمار کو شکست فاش
جب ایران کے بادشاہ ناصرالدین شاہ نے انگلینڈ کا سفر کیا تو اس نے ایران میں تمباکو اور منشیات کی کاشت کا تقریباً پچاس سالہ ٹھیکہ ایک برطانوی کمپنی "جی. ایف. تالبوٹ” کو مخصوص شرائط کے ساتھ دے دیا۔
اس معاہدے کے بعد ایران کی تمباکو تجارت مکمل طور پر انگریزوں کے قبضے میں چلی گئی۔ وہ نہایت تیزی سے ایران میں داخل ہوئے، روز بروز تمباکو اور تمباکو سے متعلق دیگر اشیاء کی برآمد میں اضافہ کیا، اور جو معمولی رقم وہ حکومت ایران کو دیتے تھے اس کے مقابلے میں سینکڑوں گنا زیادہ منافع اپنی جیب میں ڈالنے لگے۔ ایران کے اندر بھی ان کی مصنوعات کا استعمال بڑھتا گیا اور اس کے تمام فوائد کمپنی کے مالکان کو حاصل ہوتے رہے۔
نوآبادیاتی طاقتوں نے ملک کے ہر حصے میں اپنے لئے شاندار عمارتیں تعمیر کرنا شروع کیں۔ رفتہ رفتہ باشعور عوام نے محسوس کیا کہ قومیت، آزادی، اور دین خطرے میں پڑ چکے ہیں۔ علما، دانشوروں اور عوام نے خطرے کا ادراک کیا اور کچھ ہی عرصہ میں ملک کے گوشے گوشے سے تحریک اور بغاوت کے آثار ظاہر ہونے لگے۔
مرجع تقلیدِ وقت آیۃ اللہ العظمیٰ میرزا حسن شیرازی رحمۃ اللہ علیہ نے جب اس صورتحال کی اطلاع پائی تو پہلے خطوط اور ٹیلی گرام کے ذریعہ ایرانی حکومت و ملت کو اس خطرناک معاہدے سے باز رہنے کی نصیحت کی، مگر کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ آخرکار انہوں نے تاریخی فتویٰ جاری فرمایا، جس کا متن یہ تھا:

بسم الله الرحمن الرحیم
الیوم استعمالُ تنباکو و تُتُن بِاَیِّ نَحوٍ کان، در حکم محاربه با امام زمان(ع) است. والسلام.
حَرَّرَهُ الأقَلُّ مُحَمَّدحَسَنِ الحُسَینِی
(بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ آج تمباکو اور توتون کا استعمال کسی بھی صورت میں امام زمانہؑ سے جنگ کرنے کے برابر ہے۔ تحریر کردہ: محمد حسن الحسینی)
یہ فتویٰ 1309 ہجری قمری میں صادر ہوا۔
فتوے کا اثر اس قدر وسیع اور گہرا تھا کہ عوام نے فوراً اس پر عمل کرتے ہوئے چلمیں اور حقے توڑ ڈالے اور تمباکو و منشیات کا استعمال مکمل طور پر بند کر دیا۔ یہاں تک کہ غیر ملکی سفیروں نے اپنے ممالک کو تاریں بھیج کر اطلاع دی کہ: "دنیا میں ایک عظیم واقعہ پیش آیا ہے کہ جس چیز کی عادت مسلمانوں کو دن رات پڑی ہوئی تھی، حتیٰ کہ بچوں کو بھی، صرف اپنے دینی پیشوا کے دو جملے لکھ دینے سے، انہوں نے فوراً چھوڑ دی ہے، اور اب اس کا استعمال ان کے نزدیک شرم و عار سمجھا جاتا ہے۔”
ایک مؤرخ نے لکھا کہ اس فتویٰ کا اثر اتنا گہرا تھا کہ تھوڑے ہی دنوں میں تمام ایران میں منشیات کے تمام آلات و وسائل توڑ ڈالے گئے۔ حتیٰ کہ بادشاہ ایران ناصرالدین شاہ کے محل کی خدمت گذار خواتین نے بھی تمام حقے توڑ ڈالے۔ ایک دن شاہ نے حقہ منگوایا، خادمہ گئی مگر خالی ہاتھ واپس آئی۔ شاہ نے 3 مرتبہ حکم دیا مگر ہر بار وہ خالی ہاتھ پلٹی۔ آخر کار شاہ غصے میں چلّایا: "حقہ! حقہ کہاں ہے؟!”
خادمہ نے ادب و احترام سے عرض کیا: "حضور! محل میں اب ایک بھی حقہ نہیں بچا۔ سب خادماؤں نے انہیں توڑ دیا ہے اور کہتی ہیں کہ میرزائے شیرازیؒ نے تمباکو کو حرام قرار دیا ہے۔”
یوں انگریز استعمار ذلیل و رسوا ہو کر شکست کھا گیا۔ کمپنی کا ٹھیکہ منسوخ کر دیا گیا، اور ناصرالدین شاہ مجبوراً وہ امتیاز ختم کرنے پر راضی ہو گیا۔
حالانکہ آیۃ اللہ العظمیٰ میرزا محمد حسن شیرازی رحمۃ اللہ علیہ سامرہ (عراق) میں مقیم تھے اور ایران میں موجود نہ تھے، مگر ان کے فتویٰ نے پورے ملک میں ایک عظیم دینی و قومی تحریک برپا کر دی، جو تاریخ میں "تحریکِ تمباکو” کے نام سے مشہور ہوئی۔
یہی تحریک بعد میں انقلابِ مشروطیت کی بنیاد بنی اور ایران میں بیداری و آزادی کی تحریکوں کا سرچشمہ ثابت ہوئی۔
واقعی اگر مسلمان اپنے مراجعِ تقلید سے وابستگی قائم رکھیں، تو وہ کبھی بھی استعمار کے فریب میں نہیں آئیں گے۔
منقول ہے کہ جب میرزائے شیرازی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ استعمار شکن فتویٰ پھیل گیا، تو کچھ لاپرواہ اور عیش و عشرت میں مبتلا لوگ جو دین سے دور تھے، ایک چائے کے ہوٹل میں حقہ پی رہے تھے۔ فتوے کی خبر سن کر وہ سب اٹھ کھڑے ہوئے اور تمام حقے، چلمیں اور تمباکو کے برتن توڑ ڈالے۔
دوسروں نے حیرت سے پوچھا: "تم لوگ تو دین و علماء سے کوئی واسطہ نہیں رکھتے، گناہوں سے بھی نہیں ڈرتے، پھر تم نے یہ حقہ کیوں توڑ ڈالے؟”
انہوں نے جواب دیا: "یہ صحیح ہے کہ ہم گناہگار اور گا پرواہ ہیں، لیکن ہمیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ اور ان کے اہلِ بیت علیہم السلام کی شفاعت کی امید ہے۔ آج آیۃ اللہ العظمیٰ میرزا محمد حسن شیرازی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ اور ائمہ علیہم السلام کے نائب اور دین کے محافظ ہیں۔ اگر آج ہم نے ان کی نافرمانی کی اور انہیں ناراض کیا تو کل کون ہماری شفاعت کرے گا؟!”
یہ تھا وہ جذبۂ ایمان اور غیرتِ دینی جس نے قاجاریہ بادشاہ اور استعمار کو جھکنے پر مجبور کر دیا۔
16 جمادی الاول سنہ 1309 ہجری کو ایرانی بادشاہ ناصر الدین شاہ قاجار کی جانب سے ایران کے تمام صوبوں کے حکام کو حکم بھیجا گیا کہ اس معاہدے کو آج کے دن سے پورے ایران میں منسوخ اور بند کر دیا گیا۔ اب ایرانی عوام تمباکو، توتون اور دیگر منشیات کو جسے چاہیں، جس قیمت پر اور جس طریقے سے چاہیں، خرید و فروخت کر سکتے ہیں۔




