
اتر پردیش کے شاملی ضلع کے گھمتھل گاؤں میں پولیس نے ایک مسجد کے امام مولانا رفیق خان کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے مسجد کا لاؤڈ اسپیکر قابلِ اجازت ڈیسیبل حد سے زیادہ آواز میں چلایا۔ دی انڈین ایکسپریس کے مطابق، پولیس کا کہنا ہے کہ مقامی باشندوں نے اونچی آواز کی شکایت کی تھی، جس کے بعد امام کو پہلے ہی آواز کم رکھنے کی ہدایت دی گئی تھی۔ تاہم، انتباہ کے باوجود شکایت دوبارہ موصول ہونے پر قانونی کارروائی کی گئی۔ اسٹیشن ہاؤس آفیسر منوج ورما نے بتایا کہ ’’پولیس کی ایک ٹیم نے مسجد کا دورہ کیا تھا اور امام کو آواز کو قابل اجازت حد کے اندر رکھنے کا مشورہ دیا تھا۔ چونکہ اصلاحی قدم نہیں اٹھایا گیا اور خلاف ورزی دہرائی گئی، اس لئے اب قانونی کارروائی کی جا رہی ہے۔‘‘
پولیس نے بی این ایس کی دفعات 223 (سرکاری حکم کی نافرمانی) اور 293 (بار بار شور یا پریشانی پیدا کرنے) کے تحت مولانا رفیق خان کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے۔ ذرائع کے مطابق، گھمتھل ایک ہندو اکثریتی گاؤں ہے، اور کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بچنے کیلئے وہاں سیکوریٹی اہلکار تعینات کئے گئے ہیں۔
امتیازی عمل درآمد پر بحث
اس واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر صوتی آلودگی قوانین کے یکساں نفاذ پر بحث شروع ہو گئی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ایسے قوانین اکثر مساجد کو نشانہ بناتے ہیں جبکہ مندروں یا دیگر مذہبی مقامات پر اسی طرح کی خلاف ورزیوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ ییل یونیورسٹی کے لیکچرر اور کارواں میگزین کے مشاورتی ایڈیٹر سشانت سنگھ نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ قانون کی حکمرانی نہیں بلکہ قانون کے ذریعے حکمرانی ہے۔ قانون کی حکمرانی کا مطلب ہے کہ تمام مجرموں پر یکساں طور پر قانون کا اطلاق ہو، نہ کہ صرف ان پر جنہیں آپ سزا دینا چاہتے ہیں۔‘‘ واضح رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ ریاست میں اس نوعیت کا واقعہ پیش آیا ہو۔ رواں سال فروری میں، سنبھل ضلع کی شاہی جامع مسجد سے بھی پولیس نے لاؤڈ اسپیکر یہ کہہ کر ہٹا دیئے تھے کہ اس سے صوتی آلودگی بڑھ رہی ہے۔ اس وقت امام کو چھت پر چڑھ کر اذان دینے کی ہدایت کی گئی تھی۔
				
					


