اسلامی دنیاخبریںعراق

عراق و شام میں ترکی کی فوجی موجودگی میں توسیع؛ قومی سلامتی یا علاقائی سیاسی کھیل؟

ترک پارلیمان نے عراق اور شام میں اپنی فوجی موجودگی کو 3 سال کے لئے مزید بڑھانے کی منظوری دے دی ہے، جس سے خطے میں ایک بار پھر کشیدگی میں اضافہ ہو گیا ہے۔

ماہرین اور تجزیہ نگار اس اقدام کو دونوں ممالک کی خودمختاری کی خلاف ورزی اور انقرہ کی اسٹریٹجک اثر و رسوخ کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ ایران اور امریکہ کے لئے ایک سیاسی پیغام قرار دے رہے ہیں۔

اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔

ترک پارلیمان نے فیصلہ کیا ہے کہ عراق اور شام میں موجود ترک افواج کی ذمہ داری مزید 3 سال کے لئے بڑھا دی جائے۔

میڈل ایسٹ نیوز کے مطابق، یہ فیصلہ ترک صدر کی جانب سے پیش کی گئی ایک یادداشت کے بعد کیا گیا، جس کا مقصد مبینہ طور پر مسلح گروہوں، خاص طور پر کردستان ورکرز پارٹی (PKK) کے خطرات سے نمٹنا بتایا گیا ہے۔

اسی دوران، کردستان ورکرز پارٹی نے اعلان کیا ہے کہ ان کے جنگجو ترکی سے نکل کر شمالی عراق کے قندیل پہاڑوں کی جانب واپس جا رہے ہیں۔

ایک شامی-کرد محقق ہوزان عفرینی‌ نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ترکی کی فوجی موجودگی میں توسیع دراصل عراق اور شام کی خودمختاری کی خلاف ورزی اور علاقے میں مسلسل ہنگامی صورتحال برقرار رکھنے کا بہانہ ہے۔

ان کے مطابق "پی پی کے” کئی برسوں سے مذاکرات اور پرامن حل کی راہ اختیار کرنے کا اعلان کر چکی ہے، حتیٰ کہ اس نے سیاسی حل کے لئے ہتھیار بھی ایک طرف رکھ دیے ہیں، لہٰذا ترکی کی قومی سلامتی کے لئے کوئی حقیقی خطرہ موجود نہیں۔

سیاسی امور کے محقق مجاشع التمیمی نے مقامی ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انقرہ اس فیصلے کے ذریعے عراق و شام کے شمالی حصوں میں اپنے اسٹریٹجک اثر و رسوخ کو مضبوط اور اپنی مستقل موجودگی کو مستحکم کرنا چاہتا ہے۔

ان کے بقول، یہ توسیع نہ صرف کرد گروہوں پر قابو پانے کے لئے ہے، بلکہ یہ ایران اور امریکہ کو ایک سیاسی پیغام بھی دیتی ہے کہ ترکی اب بھی عراق کے میدان میں سرگرم کردار ادا کر رہا ہے۔

سیکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اقدام علاقائی بحرانوں کے سیاسی حل کے عمل کو مزید پیچیدہ بنا سکتا ہے اور عراق و شام کے استحکام کے لئے خطرہ بن سکتا ہے۔

عراق کے وزیرِ خارجہ فؤاد حسین نے اعلان کیا ہے کہ بغداد حکومت اس فیصلے پر ترکی کے ساتھ بات چیت کرے گی۔

اسی طرح جمہوری مطالعہ کے ادارہ “دستورنامہ” کے سربراہ کاظم یاور نے زور دیا کہ یہ فیصلہ صدارتی اختیارات کے تحت کیا گیا ہے، جس کا مقصد ترکی کی سرحدی سلامتی کو یقینی بنانا اور ممکنہ خطرات کا مقابلہ کرنا بتایا گیا ہے۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button