اسلامی دنیاافغانستانخبریں

افغانستان کے مدارس میں عسکریت پسندی کو فروغ؛ علم کی جگہ ہتھیار نے لے لی

طالبان کی حکومت کے تحت افغانستان کے مدارس اور جامعات تبلیغِ جنگی نظریے اور تشدد کے فروغ کا مرکز بنتے جا رہے ہیں۔

ریڈیو حریت کی رپورٹ کے مطابق، صوبہ پکتیا میں منعقد ہونے والی "ابتکارات” نمائش اس رجحان کی ایک نمایاں مثال ہے، جہاں طلباء کو جنگی سازوسامان کے ماڈل تیار کرنے کی ترغیب دی جا رہی ہے۔

اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔

طالبان افغانستان کے سرکاری اسکولوں میں طلباء کو فوجی ماڈلز اور جنگی آلات بنانے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

ریڈیو حریت کے مطابق، اس پالیسی کی تازہ مثال پکتیا صوبے میں منعقدہ "ابتکارات” نمائش ہے، جہاں طلباء کے عسکری منصوبوں کو تعلیمی کارنامے کے طور پر پیش کیا گیا۔

نمائش میں سب سے نمایاں تخلیق ایک امریکی "ہاموی” ٹینک کا ماڈل تھا، جو ایک طالبعلم نے تیار کیا۔ اس ٹینک پر روسی کلاشنکوف بندوق اور ریموٹ کنٹرول سسٹم نصب کیا گیا ہے، جس سے دو ہزار میٹر تک ہدف کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔

ٹینک کے بدن پر "شبکہ حقانی” (حقانی نیٹ ورک) لکھا ہوا تھا — وہی نیٹ ورک جس کی قیادت سراج الدین حقانی، طالبان کے وزیر داخلہ، کر رہے ہیں، اور جو جمہوری حکومت کے دور میں پیچیدہ اور خونریز حملوں کے لئے مشہور تھا۔

ریڈیو حریت کے مطابق، بہت سے نوجوان یہ سمجھتے ہیں کہ ایسے عسکری منصوبے تیار کر کے وہ طالبان حکام کی توجہ حاصل کر سکتے ہیں اور مالی امداد پا سکتے ہیں۔

طالبان نے اس کے ساتھ ہی اسکولوں میں سیکولر مضامین کے اوقات کم کر کے انہیں سخت گیر مذہبی تعلیمات سے بدل دیا ہے، جو ان کی اپنی انتہا پسندانہ تشریحِ شریعت پر مبنی ہیں۔

طالبان کے زیرانتظام پکتیا کے تعلیمی محکمہ کے سربراہ عبدالقیوم فاروقی نے اعلان کیا کہ منتخب منصوبوں کو وزارتِ معارف (تعلیم) کے سامنے پیش کیا جائے گا تاکہ ان کی ترقی اور سرپرستی کا بندوبست کیا جا سکے۔

یہ اقدام والدین اور ماہرینِ تعلیم کے لئے تشویش کا باعث بن گیا ہے، کیونکہ تعلیمی مراکز میں طالبان جنگجوؤں اور حامیوں کی موجودگی نوجوان نسل میں شدت پسندی اور تشدد کے رجحان کو بڑھا سکتی ہے۔

ریڈیو حریت کی رپورٹ کے مطابق، طالبان کا مقصد مدارس اور جامعات پر قابو پا کر اسلام کی اپنی نظریاتی تعبیر نوجوانوں میں راسخ کرنا اور انہیں مستقبل کے عسکری مقاصد کے لئے تیار کرنا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ رجحان اس بات کی علامت ہے کہ افغانستان میں تعلیم، علم اور مہارت کے بجائے، عسکری ثقافت اور تشدد کو جواز فراہم کرنے کا ذریعہ بن چکی ہے۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button