شیعہ مرجعیت

جو کچھ بھی اہل بیت علیہم السلام کی تعظیم و تجلیل کا باعث بنے، وہ در حقیقت خداوند متعال کی تعظیم و تجلیل ہے‌ اور شعائر اللہ میں شمار ہوتا ہے: آیۃ اللہ العظمیٰ شیرازی

جو کچھ بھی اہل بیت علیہم السلام کی تعظیم و تجلیل کا باعث بنے، وہ در حقیقت خداوند متعال کی تعظیم و تجلیل ہے‌ اور شعائر اللہ میں شمار ہوتا ہے: آیۃ اللہ العظمیٰ شیرازی

مرجع عالی قدر آیۃ اللہ العظمیٰ سید صادق حسینی شیرازی دام ظلہ کا روزانہ کا علمی جلسہ حسب دستور منگل 5 جمادی الاول 1447 ہجری کو منعقد ہوا۔
جس میں گذشتہ جلسات کی طرح حاضرین کے مختلف فقہی سوالات کے جوابات دیے گئے۔

آیۃ اللہ العظمیٰ شیرازی نے "شعائر” کے معنی کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:
"شعائر” "شعیرہ” کی جمع ہے، اور لغت میں اس سے بدن کے باریک بال مراد ہیں، نہ کہ داڑھی یا سر کے بال، کیونکہ سر کے بال سر کا حصہ نہیں کہلاتے، لیکن مثلاً ہاتھ کے باریک بال ہاتھ ہی کا حصہ ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے فقہاء نے، اگرچہ روایت میں اس کا ذکر نہیں، فرمایا ہے کہ وضو اور غسل میں ان باریک بالوں کو بھی دھونا ضروری ہے، کیونکہ وہ عضو کا حصہ شمار ہوتے ہیں۔

معظم لہ نے مزید فرمایا: چونکہ "شعائر” (جو "شعیرہ” کی جمع ہے) ان چیزوں پر اطلاق ہوتا ہے جو کسی چیز کے حکم میں شامل ہوں، لہٰذا جو چیز عرف کے نزدیک "شعیرہ” سمجھی جائے، وہ قابلِ قبول ہے، کیونکہ "شعیرہ” کا کوئی خاص شرعی معنی نہیں ہے۔

انہوں نے قرآن کریم کے سورہ حج آیت 32 "ذَٰلِكَ وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوبِ” ‌”یہ بات حق ہے کہ "اور جو شخص شعائرِ الٰہی کی تعظیم کرے، یہ دلوں کی پرہیزگاری (تقویٰ) کی نشانی ہے۔” بیان کرتے ہوئے فرمایا: یہاں "تعظیم شعائر الٰہی” موضوع ہے، اور "تقوائے قلوب” اس کا حکم۔ یعنی متقی انسان کا عمل ہی شعائرِ الٰہی کی تعظیم کا سبب بنتا ہے۔ لیکن شریعتِ مقدسہ نے قرآن کریم اور روایات میں "شعائرِ الٰہی” کی حدود معین نہیں کئے ہیں۔ اس لئے لازم ہے کہ ان کی پہچان کے لئے عرف کی جانب رجوع کیا جائے کہ لوگ کن چیزوں کو شعائرِ الٰہی سمجھتے ہیں۔

انہوں نے مزید وضاحت فرمائی: جب شریعت نے کسی چیز کو موضوع کے طور پر بیان نہ کیا ہو تو اس کی پہچان کے لئے عرف کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے۔ اگر شارعِ مقدس کسی خاص چیز کو مراد لیتا، تو ضرور اسے بیان کرتا، لیکن جب ایسا نہیں کیا گیا، تو ایسے حالات میں موضوع کو عرف سے سمجھا جائے گا۔

آیۃ اللہ العظمیٰ شیرازی نے قرآن کی آیات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: قرآن کریم میں شعائرِ الٰہی کی دو مثالیں بیان ہوئی ہیں، لیکن ان کا مفہوم واضح نہیں کیا گیا۔ ایک سورہ حج آیت 36  "وَالْبُدْنَ جَعَلْنَاهَا لَكُمْ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ” یعنی "اور قربانی کے اونٹوں کو ہم نے تمہارے لئے شعائرِ الٰہی میں سے قرار دیا ہے۔” اور دوسرے سورہ بقرہ آیت 158 "إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ” یعنی "یقیناً صفا اور مروہ شعائرِ الٰہی میں سے ہیں۔” اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا طواف، رمیِ جمرات، عرفات، منیٰ اور مشعر بھی شعائرِ الٰہی ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ایسا کوئی سبب نہیں کہ انہیں شعائرِ الٰہی میں شمار نہ کیا جائے، کیونکہ جب شارع یا معصومین علیہم السلام نے ان کا معنی بیان نہیں کیا ہے تو ان کی شناخت عرف کے مطابق کی جائے گی۔ عرف کے نزدیک جو چیز تعظیم و تجلیل کا سبب ہو، وہ "شعیرہ” کہلائے گی۔

آخر میں معظم لہ نے تاکید فرمائی: جو کچھ بھی اہل بیت علیہم السلام کی تعظیم و تجلیل کا باعث بنے، چونکہ وہ در حقیقت خداوندِ متعال کی تعظیم و تجلیل ہے، لہٰذا وہ شعائرِ الٰہی میں شمار ہوتا ہے۔

واضح رہے کہ مرجع عالی قدر آیۃ اللہ العظمیٰ سید صادق حسینی شیرازی دام ظلہ کے یہ روزانہ علمی نشستیں قبل از ظہر منعقد ہوتی ہیں، جنہیں براہ راست امام حسین علیہ السلام سیٹلائٹ چینل کے ذریعے یا فروکوئنسی 12073 پر دیکھا جا سکتا ہے۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button