اسوہ فضیلت حضرت زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا

آیۃ من آیات اللہ، محبوبۃ المصطفی، قرۃ عین المرتضی، نائبۃ الزہرا، شفیقۃ الحسن، شریکۃ الحسین، کفیلۃ الامامین، عقیلۃ النبوۃ، سر ابیہا، سلالۃ الولایۃ، قبلۃ البرایا، عابدہ، فصیحہ، بلیغہ، موثقہ، کاملہ، فاضلہ، محدثہ، عالمہ، فہیمہ، عقیلہ بنی ہاشم حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا 5 جمادی الاول سن 5 (یا 6) ہجری کو سرزمین وحی الہی، حرم نبوی، قُبَّۃُ الاسلام، قریۃ الانصار، مدینہ منورہ میں پیدا ہوئیں۔
آپ کے جد بزرگوار رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم خدا سے آپ کا نام زینب رکھا اور آپ کے احترام کی تاکید فرمائی، ام ابیہا حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی آغوش رحمت میں تربیت پائی۔ لیکن افسوس 5 برس کی عمر میں پہلے جد بزرگوار رحمۃ للعالمين (صلی اللہ علیہ وآلہ) اور اس کے 75 یا 95 دن بعد اپنی ماں کے سائہ رحمت سے محروم ہو گئیں یعنی بچپن ہی میں مصیبتوں اور دکھوں سے آشنا ہو گئیں۔ اپنی با برکت زندگی میں انہوں نے بے شمار سختیوں اور غموں کا سامنا کیا — والدین، بھائیوں اور بیٹوں کی شہادت دیکھی اور اسیری جیسے تلخ واقعات برداشت کئے۔ ان مصیبتوں نے انہیں صبر و استقامت کی مجسم تصویر بنا دیا۔
آپ کی شادی آپ کے چچا زاد جناب عبداللہ بن جعفر سے ہوئی، اللہ نے آپ کو فرزند عطا کئے جو کربلا میں راہ خدا میں شہید ہو گئے۔
آخر 15 رجب سن 62 ہجری کو شام میں آپ کی شہادت ہوئی اور شام میں موجود آپ کا روضہ مبارک اہل ایمان کی زیارت گاہ ہے۔
ذیل میں اقیانوس فضائل و کرامات کے چند نایاب اور گراں قدر جواہر کی جانب اشارہ مقصود ہے۔
- زینتِ پدر
عام طور پر والدین اپنے بچوں کے نام رکھتے ہیں، مگر حضرت زینب سلام اللہ علیہا کا نام معصوم والدین نے نہیں بلکہ حکم خدا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رکھا۔ جناب جبرائیل نازل ہوئے اور بعد درود و سلام عرض کیا کہ اللہ نے اس بچی کا نام لوح محفوظ پر "زینب” رکھا ہے۔ یعنی یہ اپنے باپ کی زینت ہے۔ یعنی اس باپ کی زینت ہے جس کی قدم بوسی کو ہر فضیلت نے اپنے لئے فضیلت سمجھا.
- علمِ الٰہی
انسان کی دیگر مخلوقات پر فضیلت و برتری اس کے علم و معرفت کے سبب ہے، جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہوا: "وَعَلَّمَ آدَمَ الأَسْمَاءَ كُلَّهَا” (اللہ نے آدم کو تمام اسماء کا علم عطا فرمایا۔ سورہ بقرہ، آیت 31)
سب سے برتر علم وہ ہے جو براہِ راست خداوند متعال کی جانب سے عطا ہو۔ جسے “علمِ لدنی” کہا جاتا ہے، جیسا کہ حضرت خضر کے بارے میں ارشاد ہوا: "وَعَلَّمْنَاهُ مِن لَّدُنَّا عِلْمًا” (اور اپنے علم خاص میں سے ایک خاص علم کی انہیں تعلیم دی تھی۔ سورہ کہف، آیت 65)
عقیلہ بنی ہاشم حضرت زینب سلام اللہ علیہا بھی اسی منزل پر فائز تھیں۔ جیسا کہ امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا: "أنتِ عالِمَةٌ غيرُ مُعَلَّمَةٍ، وفَهِمَةٌ غيرُ مُفَهَّمَةٍ”
“اے پھوپھی جان! آپ ایسی عالمہ ہیں جنہیں کسی نے تعلیم نہیں دیا اور ایسی فہیمہ ہیں جنہیں کسی نے نہیں سمجھایا۔”(منتهى الآمال، ج1، ص298)
- عبادت و بندگی
حضرت زینب سلام اللہ علیہا کو عبادت پروردگار سے عشق تھا۔ جیسا کہ امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا: “میری پھوپھی زینب سلام اللہ علیہا کوفہ سے شام تک کے سفر میں تمام واجب اور مستحب نمازیں ادا کرتی رہیں، اگرچہ بعض اوقات بھوک اور کمزوری کی شدت کے باعث بیٹھ کر نماز پڑھتی تھیں۔” (ریاحین الشریعه (پیشین)، ج3، ص62)
شبِ عاشور اور شام غریباں میں بھی آپ کی نماز شب قضا نہیں ہوئی بلکہ پوری رات عبادت میں بسر کی۔
امام حسین علیہ السلام نے اپنی خواہر گرامی سے وقت رخصت فرمایا: "يا أختاه لا تنسيني في نافلة الليل” “اے بہن! مجھے نمازِ شب میں نہ بھولنا (یاد رکھنا)۔” ریاحین الشریعه (پیشین)، ج3، ص61، 62)
امام معصوم سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کے اس جملے سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا عبادت و بندگی کی اعلیٰ منزل پر فائز تھیں۔
- عفت و پاکدامنی
عفت و پاکدامنی عورت کا گراں قدر زیور ہے۔ امیر المومنین امام علی علیہ السلام نے فرمایا: "اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے شہید کا اجر اُس شخص سے زیادہ نہیں ہے جو قدرت رکھنے کے باوجود عفت و پاکدامنی اختیار کرتا ہے۔ بہت قریب ہے کہ عفیف و پاکدامن انسان فرشتوں میں سے ایک فرشتہ ہو۔” (نهج البلاغه، فیض الاسلام، حكمت 466 )
عصمت کبری حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی ثانی اور نائبہ حضرت زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا کی عفت پر گفتگو سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ جیسا کہ مورخین نے ایام اسیری کے حالات میں لکھا ہے: “وہ اپنا چہرہ ہاتھ سے چھپاتی تھیں کیونکہ ان کی چادر چھین لی گئی تھی۔” (الخصائص الزینبیه، ص345)
اور اسی عفت و غیرت کے عالم میں انہوں نے یزید کے دربار میں فریاد کی: "اے آزاد شدہ غلاموں کے بیٹے! کیا یہ انصاف ہے کہ تُو اپنی عورتوں اور کنیزوں کو پردے کے پیچھے رکھے اور رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹیوں کو اسیر بنا کر اِدھر اُدھر گھماتا پھرے؟ تو نے ان کی چادروں کو چھین لیا اور ان کے چہروں کو لوگوں کے سامنے ظاہر کر دیا۔”
بے شک حضرت زینب سلام اللہ علیہا صبر، عفت، عبادت، علم اور غیرت کا وہ درخشاں نمونہ ہیں جو قیامت تک عالم انسانیت کے لئے عموما اور عالم اسلام کے لئے خصوصا مشعل راہ ہے۔
5- مولا کی اطاعت محض
قرآن کریم بغیر کسی قید و شرط کے خدا کی اطاعت کے ساتھ ساتھ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ اور صاحبانِ امر یعنی ائمہ اطہار علیہم السلام کی اطاعت بھی واجب قرار دیتا ہے۔ "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ” (ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو رسول اور صاحبانِ امر کی اطاعت کرو جو تم ہی میں سے ہیں. سورہ نساء، آیت 59)
حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے 7 معصومین علیہم السلام کے ہمراہ زندگی بسر کی، لیکن جس بات نے آپ کی شخصیت کو اجاگر کیا وہ معصوم کی اطاعت محض یعنی بغیر کسی چوں و چرا کے پیروی تھی۔ ظاہر ہے آپ نے کمسنی میں ہی اپنی والدہ ماجدہ کو اپنے امام وقت کی اطاعت و حفاظت میں کوشاں پایا، جنہوں نے اس راہ میں اپنی جان قربان کر دی تھی۔ حضرت زینب سلام اللہ علیہا اسی شہیدہ صدیقہ ماں کی آغوش تربیت کی پروردہ اور ان کی نائبہ تھیں لہذا آپ نے بھی زندگی کے ہر لمحے میں امام وقت کی اطاعت کو مقدم رکھا۔
حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے جہاں ایک جانب اہل بیت علیہم السلام کے حق کا اعلان کیا اور ان کا دفاع کیا چاہے وہ کوفہ کا بازار ہو یا ابن زیاد کا دربار ہو، اسی طرح شام کے بازار، دربار اور قید خانہ میں اہل بیت علیہم السلام کے حق کا اعلان کیا کہ ظلم کرنے والے ہار گئے مظلوم جیت گئے، قتل کرنے والے شکست کھا گئے اور قتل ہونے والے فتحیاب ہو گئے۔ وہیں دوسری جانب ہر لمحہ امام وقت کی اطاعت محض کی چاہے وہ امام حسین علیہ السلام ہوں یا ان کی شہادت کے بعد امام زین العابدین علیہ السلام ہوں آپ نے ان کی اطاعت کی۔
حضرت زینب سلام اللہ علیہا جہاں اہل بیت علیہم السلام کے حق کا دفاع کر رہی تھیں، جہاں امام وقت کی اطاعت فرما رہی تھیں وہی دوسرے مظلوموں یعنی دوسرے اسیروں کی دلجوئی اور ان کی حفاظت بھی فرما رہی تھیں کہ اگر حضرت زینب سلام اللہ علیہا نہ ہوتیں تو شاید ظالم امام زین العابدین علیہ السلام اور امام محمد باقر علیہ السلام کو شہید کر دیتے اور نتیجہ میں سلسلہ امامت ختم ہو جاتا لیکن یہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا کا ایثار، انکی شجاعت، فصاحت و بلاغت و خطابت تھی کہ ظالم آپ کے سامنے گنگ ہو گئے اور سلسلہ امامت بچ گیا۔
لہذا حق ہے کہ ہر انسان عموما اور ہر مسلمان خصوصا اس عظیم بی بی کو خراج عقیدت پیش کرے اور ان کا احسان مند رہے کہ اگر وہ نہ ہوتیں، اگر ان کے عظیم کارنامے نہ ہوتے تو نہ اسلام ہوتا نہ انسانیت ہوتی۔
اے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) اور خدیجۃ الکبری (سلام اللہ علیہا) کی نواسی، اے علی و فاطمہ (علیہما السلام) کی بیٹی، اے حسنین کریمین (علیہما السلام) کی خواہر گرامی، اے اولیاء خدا کی پھوپھی آپ پر سلام ہو۔
اے امام زین العابدین علیہ السلام کی محافظہ، اے لہجہ علی (علیہ السلام) کی خطیبہ آپ پر سلام ہو۔
اے کربلا کی مبلغہ و محافظہ آپ پر اللہ اور عباد اللہ کا سلام ہو۔




