اہل بیت علیہم السلام کی توہین اور مذہبی حرمت شکنی شیعہ مخالف گروہوں کی طرف سے بچوں کے کھیلنے والی گُڑیوں کا استعمال
ان دنوں جب ایرانی معاشرہ اقتصادی و سماجی مشکلات سے دوچار ہے، دین مخالف عناصر نے مقدس ناموں والی گُڑیائیں بنا کر بیچ رہے ہیں اور شیعہ عقائد کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
یہ اقدام، جس پر عوام کی طرف سے سخت ردِعمل ظاہر کیا گیا ہے، مذہبی عقائد کے خلاف ایک نئی قسم کے ثقافتی حملے کی علامت ہے۔
اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔
گزشتہ چند ہفتوں کے دوران، ایران کے اندرونی آن لائن اسٹورز اور پلیٹ فارمز پر “مرتضی” اور “مرضیہ” نامی دو گُڑیا کی فروخت نے ان مقدس ناموں کی کھلی توہین کے سبب عوام اور مذہبی حلقوں میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑا دی۔
یہ گُڑیائیں جنہیں خنزیر (سور) اور گوریلا جیسی شکلوں میں بنایا گیا ہے، ماہرینِ ثقافت کے مطابق ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہیں، جس کا مقصد مقدس مفاہیم کو مسخ کرنا اور اہل بیت علیہم السلام کے پاکیزہ ناموں کو بے وقعت دکھانا ہے۔
جس طرح معاویہ نے بچوں کے ذہنوں میں امیرالمؤمنین علیہ السلام کی شخصیت کو بگاڑنے کے لئے جانوروں اور کھیلوں کا سہارا لیا تھا، آج کے یہ ڈیزائنر بھی تفریحی ساز و سامان کے ذریعہ آئندہ نسلوں کے ذہنوں پر اثر ڈالنے کے درپے ہیں۔
اہل بیت علیہم السلام کے دشمنوں کے ان پر اسرار گروہوں نے جب دو معصومین علیہم السلام کے مقدس ناموں کو دو جانوروں کے لئے منتخب کیا تو بے ادبی اور بے حرمتی کی تمام حدیں پار کر لیں۔
اس گستاخانہ اقدام کو مزید ناپسندیدہ بنانے والی بات یہ ہے کہ ان دو گُڑیوں کے لئے گیارہ "بچوں” کا تصور کیا گیا ہے، تاکہ تمام ائمہ معصومین علیہم السلام کو بالواسطہ طور پر ہدف بنایا جا سکے۔
اس شرمناک شیعہ مخالف منصوبے میں، ہر ایک "بچے” کو کسی منفی خصوصیت جیسے معذوری، بدصورتی وغیرہ کے ساتھ پیش کیا گیا ہے اور گُڑیوں کو اس طرح بنایا گیا ہے کہ بچوں کو کھیل کے دوران ان پر ضرب و شتم اور توہین آمیز رویہ اپنانا پڑے۔
شیعہ نیوز ایجنسی کے رپورٹر کے مطابق، یہ مصنوعات ابتدا میں کسی سرکاری نگرانی کے بغیر آن لائن اسٹورز پر فروخت کے لئے پیش کی گئیں اور تیزی سے بچوں میں مقبول ہو گئیں۔
تاہم جب عوامی احتجاج بڑھا تو عدلیہ اور سائبر پولیس (پولیس فتا) نے مداخلت کی۔
تہران کی عدالت نے ایک حکم نامہ جاری کر کے ان گُڑیوں کے بنانے اور بیچنے والوں کے خلاف کارروائی شروع کی اور ان کی مارکیٹ سے برآمدگی کا عمل شروع کیا گیا۔
اسی دوران “حمایت از مقدسات” (مقدسات کی حمایت) کے عنوان سے ایک عوامی مہم سوشل میڈیا پر چلائی گئی، جس پر تھوڑے ہی عرصے میں ہزاروں افراد نے دستخط کئے۔
اس مہم کے متن میں ثقافتی اور عدالتی حکام سے مطالبہ کیا گیا کہ اس توہین کے مرتکبین کو سزا دی جائے اور مستقبل میں اس طرح کے اقدامات کی روک تھام کی جائے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس واقعہ اور اہل بیت علیہم السلام کے تاریخی دشمنوں کے طریقہ کار میں گہری مماثلت پائی جاتی ہے، جو کسی طرح بھی اتفاقی نہیں ہے۔
تاہم یہ معاملہ صرف عدالتی پہلو تک محدود نہیں، بلکہ ایک سنگین ثقافتی انتباہ ہے۔
تفریحی مصنوعات اور ورچوئل پلیٹ فارمز پر مؤثر ثقافتی پالیسیوں کی عدم موجودگی نے ایسے منصوبوں کو آسانی سے معاشرے میں پھیلنے کا موقع دیا ہے۔
دانشوروں کے مطابق، ایسے شیطانی منصوبوں کا مقابلہ صرف قانونی کارروائی سے ممکن نہیں، بلکہ اس کے لئے دانشمندانہ ثقافتی سرگرمیوں، والدین کی آگاہی، اور بچوں کے لئے مثبت و دینی اقدار پر مبنی مصنوعات کی تیاری ضروری ہے، تاکہ اہل بیت علیہم السلام کے دشمنوں کے اثرات سے آئندہ نسل کے ذہنوں کو محفوظ رکھا جا سکے۔