حماس کا ٹرمپ کے امن منصوبے کو مثبت جواب، غزہ میں جنگ بندی پر عالمی استقبال

حماس کی جانب سے ڈونالڈ ٹرمپ کے امن منصوبے کی منظوری کے بعد عالمی سطح پر مختلف ردعمل سامنے آئے ہیں، اور اس اقدام نے دو سالہ غزہ جنگ کے خاتمے اور یرغمالیوں کی رہائی کی امیدوں کو بڑھا دیا ہے۔
دنیا کے مختلف ممالک کے رہنماؤں اور اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل نے اس پیشرفت کو جنگ بندی اور پائیدار امن کی جانب ایک اہم قدم قرار دیا ہے۔
حماس نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے ڈونالڈ ٹرمپ کے 20 نکاتی امن منصوبے سے اپنی موافقت کا اعلان کیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ وہ تمام یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ کی پٹی کا انتظام فلسطینی غیر جانب دار شخصیات پر مشتمل ایک کمیٹی کے حوالے کرنے کے لئے تیار ہے۔
ڈوئچے ویلے کے مطابق، اس منصوبے میں اسرائیل سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنی فوجی کارروائیاں بند کرے اور فلسطینی قیدیوں کی واپسی کے ساتھ ساتھ انسانی امداد کی ترسیل کو ممکن بنائے۔
فرانس پریس کے مطابق، اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوترش نے حماس کے جواب کو "حوصلہ افزا” قرار دیتے ہوئے تمام فریقوں سے اپیل کی کہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھائیں تاکہ جنگ بندی عمل میں لائی جا سکے اور فوری امداد متاثرین تک پہنچائی جا سکے۔
امریکی صدر نے ایک ویڈیو پیغام میں زور دیا کہ غزہ کے مستقبل سے متعلق مذاکرات میں وہ "سب کے ساتھ منصفانہ برتاؤ کریں گے”، اور کہا کہ اسرائیل کو فوری طور پر غزہ پر بمباری روکنی چاہیے تاکہ یرغمالیوں کی رہائی کا عمل شروع ہو سکے۔
انڈیپینڈنٹ فارسی کے مطابق، اس موقف کے بعد اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر نے امن منصوبے کے پہلے مرحلے پر عمل درآمد کے لئے آمادگی ظاہر کی، اور فوج نے اعلان کیا کہ وہ جارحانہ کارروائیاں روک کر صرف دفاعی اقدامات جاری رکھے گی۔
فرانس، جرمنی، برطانیہ، قطر، مصر اور ترکی کے رہنماؤں نے بھی اس منصوبے کا خیر مقدم کیا ہے۔ فرانسیسی صدر نے "ایکس” نیٹ ورک پر لکھا:
"تمام یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ میں جنگ بندی قریب ہے۔”
اسی طرح جرمن چانسلر نے اس منصوبے کو امن کے لئے "بہترین موقع” قرار دیا۔
سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ حماس کے بیان میں ہتھیار ڈالنے سے متعلق کچھ ابہام موجود ہیں، تاہم اس تازہ ردعمل کو حتمی مذاکرات اور غزہ میں پائیدار جنگ بندی کے آغاز کی نئی پیشرفت قرار دیا جا سکتا ہے۔