اسلامی دنیاخبریںشامعراق

امریکہ کی نئی فوجی توجہ شام پر؛ عراق میں پینٹاگون کی فوجوں میں کمی اور ذمہ داریوں کی بغداد کو واگذاری

پینٹاگون نے اعلان کیا ہے کہ وہ عراق میں اپنی فوجی موجودگی کو بتدریج کم کرے گا اور اپنی توجہ شام میں شدت پسند سنی دہشت گرد گروہ داعش کے باقی ماندہ عناصر کے خلاف مرکوز کرے گا۔

یہ اقدام امریکی حکام کے بقول حکومتِ عراق کو اس بات کی اجازت دے گا کہ وہ داخلی سلامتی کی ذمہ داری تنہا اپنے ہاتھ میں لے۔

اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔

امریکی وزارت دفاع نے منگل 30 ستمبر کو ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ عراق میں اس ملک کا فوجی مشن بتدریج کم کر دیا جائے گا۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق ایک امریکی اہلکار، جس کا نام ظاہر نہیں کیا گیا، نے کہا ہے کہ یہ فیصلہ شام میں شدت پسند سنی گروہ داعش کے باقی ماندہ خطرات پر زیادہ توجہ دینے کے لئے کیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق، عراق میں موجود امریکی فوجی جو سن 2025 کے آغاز تک تقریباً 2500 تھے، کم ہو کر 2000 سے بھی کم رہ جائیں گے اور ان میں سے زیادہ تر کردستان عراق، بالخصوص اربیل میں تعینات ہوں گے۔

بغداد میں موجود باقی ماندہ فوجی صرف دو طرفہ سیکیورٹی تعاون کی ذمہ داریاں سنبھالیں گے۔

پینٹاگون کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے مزید زور دے کر کہا کہ داعش اب عراق کی سرزمین سے نہ تو عراقی حکومت اور نہ ہی امریکہ کے لئے کوئی مستقل خطرہ ہے، اور یہی بات بغداد کو سلامتی کے آپریشنز کی قیادت سونپنے کی بنیاد بنی ہے۔

امریکہ اس سے پہلے بھی بغداد کے ساتھ طے پائے گئے معاہدے کے مطابق صوبہ الانبار میں واقع عین الاسد فوجی اڈے سے انخلا کا آغاز کر چکا ہے۔

اگرچہ عراق میں فوجی تعداد کم کی جا رہی ہے لیکن واشنگٹن اب بھی شام میں ہزاروں داعشی قیدیوں کی رہائی کے خطرے سے پریشان ہے؛ ایسا مسئلہ جو اس دہشت گرد گروہ کی دوبارہ واپسی کا سبب بن سکتا ہے۔

دوسری جانب شام کی ناپائیدار صورتحال اور اندرونی اختلافات داعش کی تخریبی سرگرمیوں کی بحالی کے لئے سازگار ماحول فراہم کر رہے ہیں۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button