ایمنسٹی انٹرنیشنل نے دنیا بھر کی حکومتوں اور کمپنیوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ غزہ اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کی کارروائیوں کی حمایت بند کریں، جنہیں تنظیم نے بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزیاں قرار دیا ہے۔ ادارے نے ریاستی اور کارپوریٹ سطح پر اس مبینہ شراکت کو اجاگر کرتے ہوئے اسلحے کی پابندی، سرمایہ کاری کے خاتمے اور پابندیوں (Sanctions) کا مطالبہ کیا ہے۔
ایمنسٹی کی بدھ کو جاری کردہ بریفنگ کے مطابق دنیا کے ریاستی و نجی اداروں اور کمپنیوں کو چاہیے کہ وہ ہر قسم کی مالی و اقتصادی سرگرمیوں اور تعاون کو ختم کریں جو اسرائیل کے زیرِ قبضہ فلسطینی علاقے (OPT)، بشمول غزہ، میں ہونے والی خلاف ورزیوں سے منسلک ہیں۔
رپورٹ میں حکومتوں اور کمپنیوں پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ اسرائیلی فوجی کارروائیوں، طویل قبضے اور ایمنسٹی کے مطابق فلسطینیوں کے خلاف قائم "نسلی امتیاز پر مبنی نظامِ آپارتھائیڈ” کو سہارا دے رہے ہیں، جس کے باعث انسانی حقوق کی پامالیوں کا سلسلہ دہائیوں سے بغیر کسی جوابدہی کے جاری ہے۔
یہ بریفنگ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی اُس قرارداد کی مدتِ مکمل ہونے کے ساتھ سامنے آئی ہے جس میں اسرائیل کو مقبوضہ علاقوں سے انخلاء کے لیے ایک سال کی مہلت دی گئی تھی، جو اب ختم ہو چکی ہے مگر کوئی عملی اقدام سامنے نہیں آیا۔
ایمنسٹی کی سیکریٹری جنرل انیس کالامار نے کہا کہ عالمی سطح پر اسلحے کی فروخت، نگرانی کی ٹیکنالوجی اور غیر قانونی بستیوں سے جڑی تجارت کے ذریعے اسرائیل کی کارروائیوں میں شراکت داری بحران کو بڑھا رہی ہے۔
انہوں نے کہا: “انسانی وقار کوئی تجارتی چیز نہیں ہے”، اور فوری اقدامات کا مطالبہ کیا تاکہ فلسطینی شہریوں کو مزید نقصان سے بچایا جا سکے۔
بریفنگ میں 15 ایسی کمپنیوں کی نشاندہی کی گئی ہے جو مبینہ طور پر مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں خلاف ورزیوں میں حصہ ڈال رہی ہیں۔ ان میں امریکی دفاعی کمپنیاں بوئنگ، لاک ہیڈ مارٹن اور پلینٹیئر ٹیکنالوجیز؛ اسرائیلی ادارے ایل بٹ سسٹمز، رافائیل ایڈوانسڈ ڈیفنس سسٹمز اور اسرائیل ایروسپیس انڈسٹریز (IAI)؛ جبکہ چین کی ہِک وژن، اسپین کی سی اے ایف اور جنوبی کوریا کی ایچ ڈی ہنڈائی شامل ہیں۔
ان کمپنیوں پر الزام ہے کہ وہ اسلحہ، نگرانی کے نظام یا ایسی خدمات فراہم کر رہی ہیں جو اسرائیلی افواج غزہ اور مغربی کنارے میں استعمال کرتی ہیں۔ اسرائیلی ریاستی کمپنی میکوروت پر فلسطینیوں کے ساتھ امتیازی سلوک پر مبنی پانی کے ڈھانچے کے انتظام کا الزام ہے۔ اسی طرح ایئر بی این بی، بوکنگ ڈاٹ کام، ایکسپیڈیا اور ٹرپ ایڈوائزر جیسی سیاحتی ویب سائٹس پر بھی تنقید کی گئی ہے کہ وہ غیر قانونی اسرائیلی بستیوں میں موجود پراپرٹیز کو اپنی فہرست میں شامل رکھے ہوئے ہیں۔
ایمنسٹی نے ریاستوں پر زور دیا ہے کہ وہ اسلحے کی پابندیاں عائد کریں، بستیوں سے منسلک تجارتی و سرمایہ کاری سرگرمیوں پر پابندی لگائیں، اور اُن افراد و اداروں پر پابندیاں لگائیں جو قبضے کو قائم رکھنے میں شریک ہیں۔ کمپنیوں کو کہا گیا ہے کہ وہ سرمایہ کاری واپس لیں، معاہدے معطل کریں اور اسرائیل کو فوجی و نگرانی کی ٹیکنالوجی کی فروخت بند کریں۔
یہ رپورٹ بین الاقوامی عدالتِ انصاف (ICJ) کے متعدد فیصلوں کے بعد سامنے آئی ہے جن میں کہا گیا تھا کہ غزہ میں نسل کشی کے خطرات موجود ہیں اور تمام ریاستوں پر لازم ہے کہ وہ ایسے اقدامات کو روکنے کے لیے اقدامات کریں۔ تاہم ایمنسٹی کے مطابق بین الاقوامی برادری کی خاموشی اور بے عملی فلسطینیوں کو بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ رہی ہے۔