حُصین بن نُمیر کی قیادت میں فوج یزید کا مکہ پر حملہ اور خانہ خدا کی بے حرمتی کی برسی
حُصین بن نُمیر کی قیادت میں فوج یزید کا مکہ پر حملہ اور خانہ خدا کی بے حرمتی کی برسی
3 ربیع الاول سن 64 ہجری کو حُصین بن نُمیر کی قیادت میں فوج یزید کا مکہ پر حملہ اور بیت اللہ کی بے حرمتی اسلامی تاریخ کے تلخ ترین واقعات میں سے ایک ہے جو اموی خلفاء اور ان کے مخالفین کے درمیان اندرونی کشمکش اور حصول اقتدار کی جنگ کی عکاسی کرتا ہے۔
اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔
یزید بن معاویہ نے صرف 3 سال حکومت کی، وہ اپنے مختصر دور حکومت میں اہل بیت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ اور اہل مدینہ پر ظلم و ستم سے جانا جاتا ہے۔
سن 63 ہجری میں اہل مدینہ کے قیام کو کچلا گیا اور یزید کے فوجیوں نے حُصین بن نُمیر کی قیادت میں عبداللہ بن زبیر کو دبانے کے لئے مکہ پر حملہ کیا۔
اس حملہ کے نتیجے میں حرم امن الہی اور خانہ کعبہ کی بے حرمتی ہوئی۔ اموی فوج نے بیت اللہ پر پتھراؤ کیا اور اس کا کچھ حصہ منہدم کر دیا۔
حرم پر حملہ یزید کی موت تک جاری رہا جو فتنہ اور اندرونی کشمکش کی شدت کو ظاہر کرتا ہے۔
عبداللہ بن زبیر نے امام حسین علیہ السلام کے خون کا انتقام لینے کا نعرہ لگا کر بعض لوگوں کی حمایت حاصل کی اور خود کو بطور خلیفہ متعارف کرایا۔
یہ دور 2 باطل کے درمیان جنگ کی واضح مثال تھی۔ یزید اموی اور زبیری دونوں نے اپنے اقتدار اور سیاسی عزائم کو برقرار رکھنے کے لئے بیت اللہ خانہ کعبہ کے تقدس کی بے حرمتی کی۔
فوج یزید کا حملہ اگرچہ زمانہ جاہلیت میں ابرہہ کے حملے اور بعد کے دور میں حجاج کے حملے سے ملتا جلتا تھا لیکن ان میں بنیادی فرق تھا۔
ابرہہ کا ارادہ خانہ کعبہ کو تباہ کرنا تھا لیکن فوج یزید اور پھر حجاج کا مقصد اقتدار پر قبضہ کرنا اور مخالفین کو دبانا تھا نہ کہ قبلہ اور مطاف کو ختم کرنا۔
اس وجہ سے تشدد کی شدت کے باوجود خانہ کعبہ کی تعظیم قائم رہی اور خدا نے مقام مقدس کے لئے اپنی حمایت ظاہر کی۔
مشہور شیعہ فقیہ شیخ صدوق رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب "من لا یحضرہ الفقیہ” میں وضاحت کی کہ یزید اور حجاج کے لشکروں پر اصحاب فیل جیسا عذاب الہی کیوں نازل نہیں ہوا؟ کیونکہ ان کا براہ راست مقصد اسلام اور قبلہ کو تباہ کرنا نہیں تھا بلکہ عبداللہ بن زبیر جیسے مخالف حق کے خلاف حملہ تھا۔
یہ تاریخی واقعہ ولایت و امامت کو خانہ خدا کی حرمت کے ساتھ جوڑنے کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے اور ہمیں یاد دلاتا ہے کہ مقدسات کا تحفظ صرف سیاسی یا فوجی طاقت سے ممکن نہیں ہے بلکہ عدل، حق اور الہی ہدایت پر بھروسہ ہی بیت اللہ اور اسلامی اقدار کی حقیقی حیثیت کی ضمانت دیتا ہے۔
یہ حملہ اہل بیت علیہم السلام کے صبر و استقامت کی یاد دہانی ہے اور تاریخ اسلام کے لئے ایک سبق بھی ہے کہ اقتدار کی جدوجہد اگر وہ عدالت اور الہی ہدایت کے راستے سے بھٹکتی ہے تو مقدس ترین مقامات کو بھی خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔