طالبان کے چار سالہ اقتدار میں میڈیا پر پابندی ؛ آزادیٔ بیان معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار
طالبان کے چار سالہ اقتدار میں میڈیا پر پابندی ؛ آزادیٔ بیان معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار
کابل – طالبان کی دوبارہ حکمرانی کے چار برس گزرنے کے باوجود افغانستان میں میڈیا اور صحافی شدید بحرانی حالات کا سامنا کر رہے ہیں اور آزادیٔ بیان پر سخت قدغن لگا دی گئی ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی اور افغانستان جرنلسٹس سینٹر کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ چار سال کے دوران ملک بھر میں دو سو تیس سے زائد میڈیا ادارے بند ہو چکے ہیں، جبکہ ہزاروں صحافی، بالخصوص خواتین، اپنی ملازمتوں سے محروم ہو گئے ہیں۔
طالبان نے سخت گیر ضابطے نافذ کرتے ہوئے آزاد میڈیا کے وجود کو تقریباً ناممکن بنا دیا ہے۔ صحافیوں کو معمولی وجوہات، جیسے حکومت کے خلاف رپورٹنگ یا خواتین کے لیے حجاب کے اصولوں کی عدم پاسداری، کی بنیاد پر گرفتار اور قید کیا جاتا ہے۔ اس دباؤ کے باعث میڈیا ادارے شدید خودسانسوری پر مجبور ہو گئے ہیں اور حکومت یا سماجی مسائل پر تنقیدی رپورٹس شائع کرنے سے کتراتے ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق طالبان کی جانب سے یہ منظم دباؤ افغانستان کے میڈیا کے ڈھانچے کو شدید طور پر کمزور کر چکا ہے۔
میڈیا ماہرین کا کہنا ہے کہ طالبان کی "یک آواز” پالیسی نہ صرف مخالفانہ آوازوں کو ختم کر رہی ہے بلکہ معاشرے کے بارے میں آزاد اور حقیقت پسندانہ بیانیوں کو بھی دبانے کا باعث بن رہی ہے۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر یہ رجحان جاری رہا تو افغانستان میں صحافت اور میڈیا کی بنیادی ڈھانچے کی مکمل تباہی کے خدشات ہیں، جو عوامی شعور اور اجتماعی آگاہی کے اہم ترین ذرائع میں سے ایک کی فنا کا باعث ہوگا۔