افغانستان میں بھوک کا بحران؛ خواتین اور بچے انسانی تباہی کا شکار
افغانستان میں بھوک کا بحران؛ خواتین اور بچے انسانی تباہی کا شکار
ورلڈ فوڈ پروگرام اور بین الاقوامی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق لاکھوں افغان خواتین اور بچے غذائی قلت کی وجہ سے انسانی تباہی کے دہانے پر ہیں۔
ماہرین نے باخبر کیا کہ یہ بحران عالمی امداد میں کمی کے علاوہ طالبان کی محدود اور غیر موثر پالیسیوں کا براہ راست نتیجہ ہے۔
اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔
افغانستان میں بھوک کا بحران اب بھی وسیع پیمانے پر پھیل رہا ہے اور اس کا سب سے بڑا شکار خواتین اور بچے ہیں۔
ورلڈ فوڈ پروگرام نے اعلان کیا کہ ملک میں 4.6 ملین مائیں اور بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔
ان میں سے 5 سال سے کم عمر کے 3.5 ملین بچے اور 10 لاکھ سے زیادہ حاملہ اور دودھ پلانے والی ماؤں کو زندگی بچانے والے علاج کی فوری ضرورت ہے۔
بین الاقوامی تنظیم نے باخبر کیا کہ خواتین کی سربراہی میں دو تہائی خاندان اپنی روزمرہ کی خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر ہیں اور بجٹ کی کمی نے بہت سی ماؤں اور بچوں کو اہم امداد سے محروم کر دیا ہے۔
ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق افغانستان کو 2025 کے آخر تک امداد کی فراہمی جاری رکھنے کے لئے 650 ملین ڈالر کی ضرورت ہے۔
غیر ملکی امداد میں کمی کے علاوہ میڈیا ماہرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ طالبان کی پالیسیاں بھی بحران کو بڑھانے میں براہ راست کردار ادا کرتی ہیں۔ تعلیم اور کام سے لے کر سفری پابندیوں تک خواتین اور لڑکیوں پر عائد پابندیوں نے ان کے لئے اہم امداد تک رسائی کو مشکل بنا دیا ہے۔
خشک سالی، سیلاب اور شدید موسمیاتی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ ان پابندیوں نے افغانستان میں غذائی قلت کے بحران کو مزید گہرا کر دیا ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق افغانستان ان 15 ممالک میں شامل ہے جہاں بچوں میں غذائی قلت کی شرح سب سے زیادہ ہے اور ہر 10 میں سے کم از کم 4 افغان خواتین کو غذائی قلت کا سامنا ہے۔
ملکی ماہرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جب کوئی حکومت نصف آبادی یعنی خواتین کو معاشی اور سماجی سرگرمیوں سے باہر کر دیتی ہے تو یہ فطری بات ہے کہ ملک میں ذریعہ معاش کا بحران اور غذائی قلت شدت اختیار کر جائے۔
جسے طالبان آزادی کہتے ہیں، عملا افغان عوام کے لئے بھوک اور بیرونی امداد پر زیادہ انحصار کے سوا کچھ نہیں لایا۔
ماہرین کا خیال ہے کہ جب تک خواتین کو معاشرے میں فعال موجودگی سے محروم رکھا جائے گا اور معاشی اور زرعی انفراسٹرکچر کو بہتر نہیں کیا جائے گا افغانستان میں غذائی قلت کا بحران جاری رہے گا اور اس کے انسانی خطرات میں اضافہ ہوتا رہے گا۔