افغانستان

بامیان میں ہزارہ برادری کی جبری بے دخلی: طالبان پر نسلی امتیاز اور منظم بے دخلی کا الزام

بامیان میں ہزارہ برادری کی جبری بے دخلی: طالبان پر نسلی امتیاز اور منظم بے دخلی کا الزام

افغانستان کے وسطی صوبے بامیان میں طالبان کی حمایت یافتہ کوچی مسلح گروہوں کے ہاتھوں ہزارہ برادری کی 25 خاندانوں کی جبری بے دخلی نے عوامی سطح پر شدید غصے کو جنم دیا ہے۔ یہ واقعہ بنجاب شہر کے گاؤں "رَشک” میں پیش آیا، جس میں مقامی اور انسانی حقوق کے ذرائع کے مطابق، کوچی مسلح افراد اور طالبان کی مشترکہ فورسز نے ہزارہ خاندانوں کے گھروں پر دھاوا بولا، ان کو زبردستی گھروں سے نکالا، ان کا سامان باہر پھینک دیا اور گھروں کو بند کرکے کوچی خاندانوں کے حوالے کر دیا۔

یہ کارروائی ایک عدالتی فیصلے کے بعد عمل میں لائی گئی جس میں زمین کے تنازع کو کوچیوں کے حق میں طے کیا گیا تھا۔ مقامی لوگوں نے اس فیصلے کو "ظالمانہ اور امتیازی” قرار دیتے ہوئے اپیل کی، مگر ان کی شنوائی نہ ہو سکی۔ بامیان کے گورنر عبد اللہ سرحدی، جو کہ پشتون قوم سے تعلق رکھتے ہیں، نے عوامی مخالفت کے باوجود جبری بے دخلی کا حکم دیا، جسے ناقدین نے عدالتی نظام کو ہزارہ زمینوں پر قبضے کے لیے استعمال کرنے کا الزام دیا ہے۔

اقوام متحدہ میں افغانستان کے قائم مقام نمائندے نصیر احمد فایق نے اس اقدام کو "کھلی زیادتی” قرار دیا اور کہا کہ اسلام زبردستی جائیدادوں پر قبضے کی اجازت نہیں دیتا۔

افغانی شہری پارٹی نے اسے "نسلی تطہیر اور جبری نقل مکانی کی واضح مثال” قرار دیا، اور الزام لگایا کہ طالبان کوچیوں کو نسلی تفریق اور معاشی استحصال کا آلہ بنا رہے ہیں۔ پارٹی نے بین الاقوامی برادری سے فوری مداخلت کی اپیل کی۔

حزب وحدت اسلامی کے رہنما محمد محقق نے اس فیصلے کو "غیرقانونی اور نمائشی عدالتی فیصلوں پر مبنی” قرار دیا، اور کہا کہ طالبان صرف طاقت کی زبان سمجھتے ہیں، اور ان پالیسیوں کے خلاف حقیقی مزاحمت ہی واحد راستہ ہے۔

مختلف سیاسی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے علاوہ دیگر نسلی و مذہبی گروہوں سے تعلق رکھنے والے کارکنان نے اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایک غیر جانبدار بین الاقوامی تحقیقاتی کمیشن قائم کریں جو ہزارہ علاقوں کا دورہ کرے اور جبری بے دخلی اور جائیدادوں پر قبضے کی خلاف ورزیوں کی دستاویزات جمع کرے۔

ان گروہوں نے طالبان کو ملک میں بڑھتی ہوئی نسلی کشیدگی کا براہِ راست ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے خبردار کیا کہ ایسی پالیسیاں افغانستان کے معاشرتی اتحاد اور امن کے امکانات کو خطرے میں ڈال سکتی ہیں۔

سابق گورنر بامیان محمد طاہر زہیر نے کہا کہ "رشک میں جو کچھ ہوا وہ اُن بے آواز لوگوں کے خلاف سراسر ظلم ہے” اور اسے ایک "اشتعال انگیز اور آمرانہ عمل” قرار دیا۔ انہوں نے ان اقدامات کے فوری خاتمے اور ذمہ داروں کے احتساب کا مطالبہ کیا۔

یاد رہے کہ ہزارہ، جو افغانستان کی بڑی اقلیتی نسلی برادریوں میں سے ایک ہیں، طویل عرصے سے فرقہ وارانہ امتیاز اور سیاسی استحصال کا شکار ہیں، اور متعدد مرتبہ انتہا پسند گروہوں کے حملوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔ یہ واقعہ ایک بار پھر طالبان کے دور حکومت میں ان کی نازک صورتحال کو نمایاں کرتا ہے۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button