افغانستان

طالبان کی تعلیمی پابندی کے بعد افغان لڑکیاں دینی مدارس کا رخ کرنے پر مجبور — تعلیم کا واحد سہارا

طالبان کی تعلیمی پابندی کے بعد افغان لڑکیاں دینی مدارس کا رخ کرنے پر مجبور — تعلیم کا واحد سہارا

ایسوسی ایٹڈ پریس (AP) اور خامہ پریس کی رپورٹ کے مطابق، طالبان کی جانب سے چھٹی جماعت کے بعد لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کے تین سال بعد اب ہزاروں افغان نوجوان لڑکیاں دینی مدارس میں داخلہ لے رہی ہیں۔ افغانستان میں اسکولوں اور جامعات میں داخلے پر مکمل پابندی کے باعث مدارس ان کے لیے تعلیم کا واحد ذریعہ بن چکے ہیں۔

2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان دنیا کا واحد ملک بن چکا ہے جہاں باضابطہ طور پر لڑکیوں کی ثانوی اور اعلیٰ تعلیم پر پابندی عائد ہے۔ ایسے حالات میں مدارس ان لڑکیوں کے لیے واحد تعلیمی پناہ گاہ بن چکے ہیں، جو علم حاصل کرنے کے خواب کو زندہ رکھنا چاہتی ہیں۔ 25 سالہ فائزہ جیسی لڑکیاں امید رکھتی ہیں کہ مذہبی تعلیم میں سنجیدگی دکھا کر شاید وہ کبھی دوبارہ رسمی تعلیمی اداروں تک رسائی حاصل کر سکیں۔

کابل میں واقع "تسنیم نصرت اسلامک سائنسز سینٹر” کے ڈائریکٹر زاہد الرحمن صاحبی کے مطابق ان کے ادارے میں اس وقت تقریباً 400 طلبہ زیرِ تعلیم ہیں، جن میں سے 90 فیصد خواتین ہیں جن کی عمریں تین سے ساٹھ سال کے درمیان ہیں۔ جب سے رسمی اسکول بند ہوئے ہیں، داخلوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ طلبہ قرآن، فقہ، حدیث اور عربی زبان کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اگرچہ مدارس پہلے بھی مقبول تھے، لیکن اب یہ لڑکیوں کے لیے واحد تعلیمی سہارا بن چکے ہیں۔

طالبان کے ایک تعلیمی افسر کرامت اللہ اخوندزادہ کے مطابق گزشتہ سال ایک ہی سال میں 10 لاکھ سے زائد طلبہ نئے مدارس میں داخل ہوئے، جس سے مجموعی تعداد 30 لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔

اگرچہ بعض طالبان رہنما جیسے سابق نائب وزیر خارجہ شیر عباس ستانکزئی اس پابندی کو "غیر ضروری” قرار دیتے ہیں، تاہم لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی اب بھی برقرار ہے۔ اقوام متحدہ کی ایجنسی یونیسف کی سربراہ کیتھرین رسل نے خبردار کیا ہے کہ اگر یہ پابندی 2030 تک جاری رہی تو 40 لاکھ سے زائد افغان لڑکیاں مستقل طور پر پرائمری کے بعد کی تعلیم سے محروم ہو جائیں گی۔

اگرچہ کچھ مذہبی علماء مذہبی اور جدید تعلیم کے انضمام کی حمایت کرتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ مدارس اب لڑکیوں کے لیے مجبوری کا راستہ بن چکے ہیں، نہ کہ ان کی پہلی پسند۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر مقامی اور بین الاقوامی سطح پر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو افغانستان کو ایک مکمل نسل کی تعلیمی محرومی کا سامنا کرنا پڑے گا، جس کے اثرات معیشت، صحت اور ترقی پر نہایت سنگین ہوں گے۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button