ایشیاء

ملائیشیا کا مؤقف: مصنوعی ذہانت کو اسلامی شریعت کے نور میں رہنمائی ملنی چاہیے

ملائیشیا کا مؤقف: مصنوعی ذہانت کو اسلامی شریعت کے نور میں رہنمائی ملنی چاہیے

ملائیشیا نے اس بات پر زور دیا ہے کہ مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) کی ترقی اسلامی اصولوں کی روشنی میں ہونی چاہیے، اور سائنسی ترقی اگر روحانی اقدار سے جدا ہو جائے تو اس کے خطرناک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔

یہ بات ملائیشیا کے وزیر اعظم انور ابراہیم نے ریاست "پوتراجایا” میں منعقدہ تقریب "ملائیشیا بِرمُنجات 2025” کے دوران نماز گزاروں سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہا: "تکنالوجی خود راہنمائی نہیں دیتی، بلکہ اگر اس کی رہنمائی اقدار کے نور سے نہ ہو تو یہ راہ سے بھٹکا بھی سکتی ہے۔”

انور ابراہیم نے علماء دین اور پالیسی سازوں کے درمیان فکری شراکت کی دعوت دی، تاکہ مصنوعی ذہانت کے دور میں ملائیشیا کے لیے ایک ایسی قومی حکمت عملی تیار کی جا سکے جو اسلامی اصولوں پر مبنی ہو۔ انہوں نے کہا کہ ان کا ملک ایسی درآمد شدہ فکری و سائنسی ماڈلز پر انحصار نہیں کرے گا جو ان معاشروں سے آئے ہوں "جو مقصد اور معنی کھو چکی ہیں”، بلکہ وہ اپنی پالیسیاں خالص اسلامی اصولوں کی بنیاد پر ترتیب دے گا۔

انہوں نے اسلامی تاریخ کی روشنی میں روایتی اسلامی مدارس جیسے "پوندوک” کا تذکرہ بھی کیا، جو نوآبادیاتی دور میں مزاحمت اور اسلامی شناخت کے تحفظ میں پیش پیش رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ مدارس آج بھی عصری اسلامی تعلیم کی تشکیل میں مرکزی کردار ادا کر سکتے ہیں۔

مزید برآں، انور ابراہیم نے اسلامی تعلیمات کو ٹیکنالوجی اور حکمرانی کے شعبوں میں شامل کرنے کی ضرورت پر زور دیا، تاکہ مسلم دنیا ایک ایسا فکری متبادل فراہم کرے جو ایمان اور عقل کے درمیان توازن قائم کرے، اور ایک ایسے عالمی منظرنامے میں اخلاقی رہنمائی فراہم کرے جو تیز رفتار ترقی کے باوجود راہنمائی سے محروم ہوتا جا رہا ہے۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button