25 ذی القعدہ؛ یوم دحو الارض، پہلی الہی رحمت کے نزول کا دن
25 ذی القعدہ؛ یوم دحو الارض، پہلی الہی رحمت کے نزول کا دن
"دحو الارض” مطابق 25 ذی القعدہ، جس دن اللہ نے کرہ ارض پر نظر کی اور اسے حیات بخشی۔ اس دن سے زمین کے وہ حصے جو مکمل طور پر پانی میں ڈھکے ہوئے تھے سوکھنے لگے یہاں تک کہ یہ آہستہ آہستہ آج کی زمینی آبادی کا ایک چوتھائی حصہ بن گیا۔
"دحو” کا مطلب پھیلانا ہے اور بعض نے اس کی تشریح کی ہے کہ کسی چیز کو اس کے اصل مقام سے ہٹا دینا۔
"دحو الارض” (زمین کی توسیع) سے مراد یہ ہے کہ شروع میں زمین کی پوری سطح پہلے سیلابی بارشوں کے نتیجہ میں آنے والے پانیوں سے ڈھکی ہوئی تھی، یہ پانی رفتہ رفتہ زمین کے گڑھوں میں جم گیا اور خشک زمین پانی کے نیچے سے نکل کر دن بہ دن وسیع ہوتی گئی۔
روایات کے مطابق پانی سے نکلنے والا پہلا نقطہ خانہ کعبہ اور بیت اللہ الحرام ہے۔ قرآن کریم اور اسلامی احادیث میں یوم دحو الارض (زمین کی وسعت اور پھیلاؤ) کا ذکر ہوا ہے اور اس دن کی عبادت بڑی اہمیت کی حامل ہے۔
امیر المومنین امام علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: 25 ذی القعدہ کو آسمان سے پہلی رحمت زمین پر نازل ہوئی۔ جو شخص اس دن روزہ رکھے اور رات عبادت میں بسر کرے اسے 100 سال کی عبادت کا ثواب ملے گا کہ جس میں دنوں میں روزہ اور راتوں میں عبادت شامل ہوگی۔
بعض مفسرین کے نزدیک سورہ نازیات آیت 30 "وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذَٰلِكَ دَحَاهَا” اس کے بعد زمین کا فرش بچھایا ہے۔ کی جانب اشارہ ہے۔
اس آیت کی تفسیر میں یہ بھی کہا گیا ہے: اللہ تعالی نے زمین کو اس طرح پھیلایا کہ وہ انسانی زندگی، پودوں اور جانوروں کی پرورش کے لئے تیار تھی۔ اس نے پہاڑوں کو اکھاڑ کر اور چٹانوں کو زمین میں تبدیل کر کے گڑھوں اور کھڑی اور خطرناک ڈھلوانوں کو بھرا۔ انہیں ہموار اور رہنے کے قابل بنایا، جبکہ اس کے ابتدائی تہہ ایسے تھے کہ ان میں انسانی زندگی ممکن نہ تھی۔
"دحو الارض” کے علاوہ اس دن دیگر واقعات بھی رونما ہوئے ہیں جس سے اس کی اہمیت میں چار چاند لگ گئے۔ جیسے حضرت ابراہیم خلیل علیہ السلام کی ولادت، حضرت عیسی مسیح علیہ السلام کی ولادت، حجۃ الوداع کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کا مدینہ منورہ سے سفر کہ جس میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے علاوہ تمام ازواج بھی آپ کے ہمراہ تھیں۔
ایک روایت کے مطابق اسی دن حضرت امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف قیام فرمائیں گے۔