ایشیاءخبریںدنیاہندوستان

پروفیسرعلی خان کی گرفتاری: سپریم کورٹ عرضی سننے پر راضی، گرفتاری پر شدید تنقیدیں

سپریم کورٹ نے اشوکا یونیورسٹی کے اسوسی ایٹ پروفیسر علی خان محمودآباد کی عرضی پر جلد سماعت کی رضامندی ظاہر کی ہے، جنہیں فوجی آپریشن "سندور” پر اپنے تبصروں کی پاداش میں گرفتار کیا گیا۔ سینئر وکیل کپل سبل نے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور جسٹس آگسٹین جارج مسیح کی بینچ کے سامنے معاملہ پیش کیا، اور عدالت سے جلد سماعت کی درخواست کی۔

پروفیسر علی خان پر دو مقدمات درج کیے گئے ہیں، ایک بھارتیہ جنتا پارٹی کے یووا مورچہ کے رہنما یوگیش جاتھری کی شکایت پر اور دوسرا ہریانہ ویمن کمیشن کی چیئرپرسن رینو بھاٹیا کی شکایت پر۔
علی خان پر بھارتیہ نیایا سنہیتا کی مختلف دفعات کے تحت الزام ہے کہ ان کے بیانات سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو ٹھیس پہنچی، عوامی فساد کو اُبھارا گیا اور خواتین کے وقار کے خلاف بات کی گئی۔ ان پر قومی خودمختاری کو نقصان پہنچانے جیسے سنگین الزامات بھی عائد کیے گئے۔ اتوار کو انہیں دو دن کی پولیس حراست میں دے دیا گیا۔
پروفیسر نے "آپریشن سندور” کے بعد سوشل میڈیا پوسٹ میں بی جے پی کی پالیسیوں، ہجومی تشدد، بلڈوزر سیاست اور اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک پر تنقید کی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے آئینی حق کے تحت اظہارِ رائے کیا اور ان کا مقصد امن و ہم آہنگی کو فروغ دینا تھا۔
پروفیسر کی گرفتاری پر ملک بھر کی علمی، ادبی اور سیاسی شخصیات نے سخت ردعمل ظاہر کیا ہے۔ کانگریس صدر ملکا رجن کھڑگے، مہوا موئترا، اپوروانند اور دیگر نے اس اقدام کو آزادی اظہار پر حملہ قرار دیا۔ اشوکا یونیورسٹی کی فیکلٹی نے بھی گرفتاری کو بے بنیاد قرار دے کر مذمت کی ہے۔
راجہ محمودآباد مرحوم کے فرزند پروفیسر علی خان نے اعلی عصری تعلیم کے علاوہ حوزہ علمیہ زینبیہ دمشق میں دینی تعلیم حاصل کی۔ موصوف اردو، ہندی، انگریزی، عربی، فارسی کے علاوہ کئی رائج زبانوں میں مہارت رکھتے ہیں۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button