
نئی دہلی: ایسوسی ایشن آف پروٹیکشن آف سول رائٹس (APCR) کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق، 22 اپریل سے 8 مئی کے درمیان ملک بھر میں مسلم مخالف نفرت پر مبنی جرائم کے کم از کم 184 واقعات پیش آئے، جن میں مسلمانوں اور کشمیریوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا۔ یہ واقعات پہلگام حملے کے بعد شدت اختیار کر گئے، جس کے بعد فرقہ وارانہ کشیدگی میں واضح اضافہ دیکھا گیا۔
رپورٹ کے مطابق، ان واقعات میں 84 نفرت انگیز تقاریر، 39 حملے، 19 املاک کی توڑ پھوڑ، اور 3 قتل کے واقعات شامل ہیں۔ پولیس کی غیر فعالی اور بعض مقامات پر تعصب پر مبنی رویہ بھی رپورٹ کا حصہ ہے۔
قتل کے واقعات
اتر پردیش کے آگرہ میں چھتریہ گو رکشا دل سے وابستہ افراد نے ایک مسلمان شخص کو قتل جبکہ اس کے کزن کو شدید زخمی کر دیا۔ کرناٹک کے منگلور میں ایک شخص کو ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کے نعرے کا الزام لگا کر مار دیا گیا۔ اسی طرح جھارکھنڈ کے بوکارو میں ایک ہندو ہجوم نے ایک مسلمان نوجوان کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔
حملے اور تشدد
متعدد ریاستوں میں مسلمانوں، بالخصوص پھیری والوں، تاجروں، طلباء، خواتین، اور مذہبی شخصیات پر حملے کیے گئے۔ چندی گڑھ اور ہماچل پردیش میں کشمیری طلباء اور خواتین کو ہدف بنایا گیا۔ اتر پردیش، بہار، مہاراشٹر، دہلی اور تلنگانہ سب سے زیادہ متاثرہ ریاستیں رہیں۔
نفرت انگیز تقاریر
بعض مقررین نے ہندو برادری کو مسلمانوں کے خلاف مسلح ہونے کی ترغیب دی، جبکہ دیوبند کے مسلمانوں کو علاقہ چھوڑنے کی دھمکیاں دی گئیں۔ متعدد مقامات پر مسلمانوں کے سماجی اور معاشی بائیکاٹ کی اپیلیں بھی کی گئیں۔
املاک کی توڑ پھوڑ
مسلمانوں کی دکانوں، مدارس، گھروں، گاڑیوں، اور مذہبی مقامات کو نشانہ بنایا گیا۔ راجستھان میں بی جے پی کے ایک ایم ایل اے کی موجودگی میں مسجد کو نقصان پہنچایا گیا، جبکہ اتراکھنڈ میں ایک اور مسجد پر حملہ ہوا۔
پولیس کا کردار
رپورٹ میں پولیس پر جانبداری، غیر فعالی اور بعض مقامات پر متاثرین کو ہی ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔ ایک مسلمان ایم ایل اے کو بیان دینے پر، جبکہ ایک مزدور کو سوشل میڈیا پوسٹ پر گرفتار کیا گیا۔
یہ واقعات ہندوستان میں بڑھتے ہوئے مذہبی تعصب اور اقلیتوں کے خلاف منظم تشدد پر سنگین سوالات اٹھاتے ہیں، جس پر فوری اور مؤثر کارروائی کی ضرورت ہے۔