مصر میں فتوی جاری کرنے کا نیا قانون؛ فتووں کو منظم کرنا یا میڈیا پر پابندی

مصری پارلیمنٹ نے "اسلامی فتاوی کے اجرا کو منظم کرنے” کے نئے قانون کی منظوری دے دی۔الازہر کے نائب کے بقول یہ اقدام فتوی ترتیب دینے میں ایک بے مثال قدم ہے۔ "آر ٹی” کے مطابق اس قانون کو الازہر دارالافتاء اور وزارت اوقاف کی حمایت حاصل ہے۔
تا ہم! مصری صحافی یونین نے اسے غیر آئینی قرار دیتے ہوئے غیر رسمی فتووں کی اشاعت پر پابندی لگانے کے خلاف خبردار کیا۔
اس قانون کے مطابق صرف رسمی دینی اداروں کو فتوی جاری کرنے کی اجازت ہے اور میڈیا کو اس فریم ورک سے باہر فتوے شائع کرنے سے گریز کرنا چاہیے، بصورت دیگر انہیں سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔
یہ قانون مصری حکومت کی دینی گفتگو کو جدید بنانے اور انتہا پسندی سے نمٹنے کی کوششوں کے ایک حصہ کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے۔
قانون کے مخالفین بالخصوص مصری صحافیوں کی یونین کا خیال ہے کہ غیر رسمی فتووں کی اشاعت پر پابندی کا مضمون دینی پروگراموں کو محدود کرنے اور میڈیا پر دباؤ ڈالنے کا بہانہ بن جائے گا۔
یونین کے مطابق مذکورہ بالا آرٹیکل 71 سے متصادم ہے، جو آزادی صحافت کی ضمانت دیتا ہے۔
ناقدین نے باخبر کیا کہ حکومت اس قانون کو مختلف فقہی نظریات کی آوازوں کو خاموش کرنے اور فقہی مکالمہ کے لئے جگہ کو مزید تنگ کرنے کے لئے استعمال کر سکتی ہے۔
ایک اور تشویش چند رسمی اداروں کے ہاتھوں فتوی جاری کرنے کا حد سے زیادہ ارتکاز ہے، جو آزاد یا جدیدیت پسندانہ رائے کے خاتمے کا باعث بن سکتی ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو ناقدین کے نزدیک اجتہاد کی روح اور اسلامی فقہ کی حرکیات سے مطابقت نہیں رکھتی۔