امیر اور غریب کے لئے دو بالکل مختلف ایران؛ امیروں کے لئے اسکول، اکثریت کے لئے محرومی

موجودہ ایرانی حکومت کے تحت تعلیمی نظام دو غیر مساوی حصوں میں تقسیم ہے۔ایک جانب کئی سو ملین کی ٹیوشن فیس والے اسکول اور امیروں کے بچوں کے لئے یورپی کیمپس ہیں اور دوسری جانب محروم علاقوں کے بچوں کے لئے پنکھے، بلیک بورڈ اور چاک کے بغیر کلاسز ہیں۔یہ دور رؤیہ ایران کے مستقبل کو دو مختلف راستوں پر لے گیا ہے۔
اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔
ایران کا تعلیمی نظام آج ملک میں گہری طبقاتی تقسیم کی واضح تصویر پیش کر رہا ہے۔
ایک خلا جو کلاس روم میں شروع ہوتا ہے اور افراد کے سماجی اور پیشہ ورانہ مستقبل میں جاری رہتا ہے۔
11 مئی کو "ہفت صبح” اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق تہران کے کچھ نجی اسکولوں کے ٹیوشن فیس 500 ملین تومان سے زیادہ ہو گئی ہے۔
وہ اسکول جن کے طلباء سوئمنگ پولز، ریسٹورنٹ، غیر ملکی زبانوں کا کورس، تیز رفتار انٹرنیٹ اور یورپ میں تفریحی کیمپ سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
اس کے بر خلاف سرکاری اسکولوں میں جن میں سے 75 فیصد رسمی اعداد و شمار کے مطابق معیاری تعلیمی سہولیات کا فقدان ہے۔ طالب علم پنکھے، امتحانی کاپیوں یا مناسب ڈیسک اور بینچ سے بھی محروم ہیں۔
سردشت کے ایک استاد نے "فارسی انڈیپینڈنٹ” کو بتایا: "ہم کبھی کبھی اپنی تنخواہ چاک اور گیند خریدنے کے لئے خرچ کرتے ہیں۔” ان بچوں نے کبھی کمپیوٹر بھی نہیں دیکھا ہے، بیرون ملک سفر تو دور کی بات ہے۔
جنوبی ایران میں خوزستان میں ایک استاد ایسی ہی صورتحال کے بارے میں بتاتے ہیں: "ہمارے پاس اس گرمی میں پنکھے تک نہیں ہیں۔” ڈراپ آؤٹ کی شرح میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ غربت، لت اور تعلیمی عدم مساوات کے باعث بچے اسکول جانے سے گریز کرتے ہیں۔
وزارت تعلیم کے اعداد و شمار کے مطابق 3 ہزار سرکاری اسکولوں میں تربیت یافتہ اساتذہ کی کمی ہے اور 10 لاکھ سے زائد بچے اسکولوں سے محروم ہیں۔یہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ داخلہ امتحان میں صرف 7 فیصد ٹاپ اسکور سرکاری اسکولوں سے آتے ہیں۔کئی یورپی ممالک میں پرائیویٹ اسکول تعلیمی نظام کا صرف 5 فیصد بنتے ہیں۔لیکن ایران میں تعلیمی سہولیات میں نمایاں فرق کے ساتھ 16 فیصد اسکول نجی ہیں۔
یہ دونوں تعلیمی ایران، ایران میں ساختی عدم مساوات اور وسیع پیمانے پر نا انصافی کی ایک انتباہی علامت ہیں۔