خبریںدنیایورپ

ہالینڈ میں مساجد کے خلاف جاسوسی کے اسکینڈل بے نقاب؛ مسلمانوں کو اب حکومت پر بھروسہ نہیں

ہالینڈ میں ایک خفیہ سیکورٹی منصوبہ کے انکشاف کے ساتھ ہی یہ بات سامنے آئی کے ملک کی سماجی امور کی وزارت نے 2016 سے 2019 کے درمیان مسلمانوں اور مساجد سے غیر قانونی طور پر ذاتی معلومات اکٹھا کی ہے۔

اس اسکینڈل نے جو ڈیٹا کو حذف کرنے کے سرکاری حکم کے ساتھ تھا، نئے ملک کی اسلامی برادری میں عدم اعتماد اور غصہ کی لہر کو جنم دیا ہے۔

اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔

ڈچ ڈیٹا پرائیویسی واچ ڈاگ نے وزارت سماجی امور کو اگلے دو ماہ کے اندر مسلمانوں سے جمع کئے گئے تمام ذاتی ڈیٹا کو حذف کرنے کا حکم دیا ہے۔

یہ ڈیٹا 2016 اور 2019 کے درمیان خفیہ تحقیقات کے دوران جمع کیا گیا تھا۔

اناتولی ایجنسی کے مطابق ملک کی کم از کم 10 میونسپلٹیوں نے نجی ایجنسیوں کی مدد سے خفیہ طور پر نمازیوں کے بھیس میں مساجد میں تفتیش کار بھیجے ہیں۔‌

ان افراد نے اپنی شناخت ظاہر کئے بغیر مساجد کے اندرونی حصوں میں گھس کر مسلمانوں کے تعلقات اور سرگرمیوں کی نگرانی کی۔

ڈچ اخبار ان آر سی کی شائع کردہ رپورٹ کے مطابق ڈچ ڈیٹا پروٹیکشن اتھارٹی کے سربراہ ایلیڈ وولفیسن  نے اس بات پر زور دیا کہ اس آپریشن میں قانونی بنیادوں کا فقدان ہے اور یہ مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک کی ایک مثال ہے۔

ایک قانونی وکیل سمیرا صابر نے یہ بھی بتایا کہ وزارت نے ائمہ جماعات اور مساجد کے منتظمین کو سلفی یا اخوان المسلمین کے ارکان کے طور پر درجہ بندی کرنے کے لئے بھی اقدامات کیے ہیں۔

اس کے جواب میں مسلمانوں کے ساتھ حکومتی تعلقات کونسل کے سربراہ محسن ککطاش نے باخبر کیا کہ مسلمان اب خود کو عام شہری نہیں سمجھتے اور محسوس کرتے ہیں کہ وہ ہمیشہ نگرانی میں رہتے ہیں۔

انہوں نے کھوئے ہوئے اعتماد کو دوبارہ بنانے کے لئے مزید سنجیدہ اقدامات کرنے پر زور دیا، اس بات پر زور دیا کہ ڈیٹا مٹانا کافی نہیں ہے عدم اعتماد کا علاج ہونا چاہیے۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button