
۲۲ اپریل کو دہلی کے تال کٹورہ اسٹیڈیم میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی قیادت میں مختلف ملی، سماجی اور مذہبی تنظیموں نے نئے وقف قانون کے خلاف ایک تاریخی احتجاجی جلسے کا انعقاد کیا۔ اس اجتماع میں معروف مذہبی رہنما مولانا سید کلب جواد نقوی سمیت ملک کی کئی ممتاز شخصیات نے شرکت کی۔
مولانا کلب جواد نے اپنے خطاب میں اتحاد، امن اور حکمت عملی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ جس طرح مہاتما گاندھی نے عدم تشدد کے ذریعے انگریز حکومت کا مقابلہ کیا، اسی طرح موجودہ حالات میں بغیر ہتھیار کے ظلم و ناانصافی کو شکست دی جا سکتی ہے۔ انہوں نے اتحاد کو دنیا کی سب سے بڑی طاقت قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں اپنی توانائی کسی مخصوص مذہب یا فرقے کے خلاف نہیں بلکہ فرقہ پرستی اور مذہبی جنون کے خلاف استعمال کرنی چاہیے۔
مولانا نے مزید کہا کہ آج ہر مسجد میں مندر تلاش کیا جا رہا ہے، اور سرکاری عمارات تک میں مندر بنا دیے گئے ہیں۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ اگر ہندو برادری کو سرکاری زمینوں پر عبادت گاہیں بنانے کی اجازت ہے تو دیگر مذاہب کو کیوں نہیں؟ اس کے لیے ایک بیداری مہم چلانے کی ضرورت ہے تاکہ عوام کو اس ناانصافی کا شعور حاصل ہو۔
مولانا کلب جواد نے آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسد الدین اویسی کے قانونی انداز کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں بھی اسی طرح مضبوط قانونی لڑائی لڑنی ہوگی۔ اب دفاعی انداز ترک کر کے جرات مندانہ قدم اٹھانے کا وقت آ گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وقف املاک پر غیر قانونی قبضے تیزی سے بڑھ رہے ہیں، اور لکھنؤ جیسے شہروں میں اوقافی زمینوں پر سینکڑوں غیر قانونی مندر تعمیر ہو چکے ہیں۔

انہوں نے حکومت کی طرف سے پیش کیے گئے نئے وقف قانون کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ سرکار کے زیر انتظام اوقاف میں نہ صرف بدعنوانی عام ہے بلکہ عوام کی فلاح کے نام پر کوئی عملی کام نہیں ہو رہا۔ مثال کے طور پر حسین آباد ٹرسٹ سے ایک روپیہ بھی غریبوں پر خرچ نہیں ہوا۔
انہوں نے اس بات پر بھی شدید اعتراض کیا کہ جتنی مذہبی عمارات آثارِ قدیمہ میں شامل کی گئی ہیں، انہیں وقف کے دائرے سے نکال دیا گیا ہے، جو کہ اوقافی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
جلسے کا پیغام واضح تھا: اتحاد، شعور اور مضبوط قانونی مزاحمت کے ذریعے فرقہ پرستی اور حکومتی ناانصافیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے گا۔